تحریر: اویس قرنی
مشال خان کی شہادت کو تین سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن آج بھی شہید کے قاتل آزادانہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ پاکستان میں طلبہ کے حالیہ تحرک پر مشال خان کی شہادت کے ان مٹ نقوش موجود ہیں۔ یہ نظام اور اس کے رکھوالے انصاف کر سکتے ہیں نہ ہی ان سے انصاف کی توقع کرنی چاہئے۔ مشال خان سوشلسٹ انقلاب کا سپاہی تھا اور اس کا انصاف بھی انقلاب پر قرض ہے۔ بقول کامریڈ لیون ٹراٹسکی تاریخ کبھی دیر سے انصاف کرتی ہے لیکن کرتی ضرور ہے۔
تاریخی طور پر انقلابی فرائض کی ادائیگی میں نوجوانوں‘ بالخصوص طلبہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ کوئی توہماتی دعویٰ یا عقیدہ نہیں بلکہ اس کی خالصتاً سماجی اور تاریخی بنیادیں ہیں۔ نوجوان معاشرے کی ایسی پرت سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سماجی بے چینی سب سے پہلے آشکار ہوتی ہے۔ اور نہ صرف آشکار ہوتی ہے بلکہ جوانی کی شورش انہیں اس بے چینی کے اظہار پر مجبور کرتی ہے۔ کبھی انہیں چٹانوں سے بھی سخت آمریتوں سے ٹکرانے تو کبھی بڑے بڑے سیاسی جگادریوں کو اکھاڑ پھینکنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کی طلبہ سیاست نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں کی مسلسل سیاسی بیگانگی کے عہد میں پروان چڑھنے والی حالیہ نوجوان نسل آج نہ صرف اپنی امنگوں کے سیاسی اظہار کے ذرائع تلاش کر رہی ہے بلکہ کسی حد تک انہیں تخلیق بھی کر رہی ہے۔ لیکن نوجوانوں کی سیاست میں ماضی کے اسباق اور اجداد کی انقلابی میراث ضرور شامل ہونی چاہئے۔ یہ لازمی نہیں کہ اسباق براہ راست تجربات سے ہی اخذ کیے جائیں۔ بلکہ انقلابی نظریات اور تھیوری، جن پر نوجوانوں کو عبور حاصل کرنا چاہئے، بنیادی طور پہ ماضی کے تجربات کے نچوڑ پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ کوئی بھی بڑی تحریک اس میں شامل لوگوں کے نہ صرف اپنے بلکہ مجموعی طور پر ساری نسل انسان کے تجربات کے اخذ شدہ نتائج کی روشنی میں مختلف مدارج عبور کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ اسی طرح تحریک ہمیشہ ایک ہی رفتار اور سمت میں آگے کی جانب نہیں بڑھ رہی ہوتی ہے بلکہ اس پر اتار چڑھاﺅ کے مراحل مسلسل اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی لڑائی کو منظم کرنے والے بے لوث سپاہیوں کی جرات و استقامت کے ساتھ ساتھ نظریاتی پختگی بنیادی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ایک طرف مایوسی اور بدگمانی کی دلدلوں کو عبور کر کے تو دوسری طرف بے صبری اور مہم جوئی کے رجحانات کو جھٹکتے ہوئے صبر آزمائی اور مستقل مزاجی وقت کی اہم ضرورت بن جاتی ہے۔ تحریک کاموضوعی عنصر چاہے کتنا ہی بے باک اور متحرک کیوں نہ ہو جائے‘ معروضی حقائق سے ماورانہیں ہوسکتا ۔ وہ ایک حد تک تو معروضی حالات پر اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن ان کو یکسر بدلنے کے مواقع روز روز نہیں ملتے۔ لیکن تاریخ کے مخصوص مراحل میں مخصوص معروضی حالات کے تحت فیصلہ کن نتائج کے حصول میں موضوعی عنصر بنیادی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ معروض اور موضوع کا یہ جدلیاتی تال میل ہی تحریکوں کی زندگیوں میں فیصلہ کن عنصر بن جاتا ہے۔
ایک انتہائی جرات مندانہ تحریک کی شورش پر بھی وقتی طور پر سکوت طاری ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر خاموشی میں ہی طوفان پنہاں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طلبہ تحریک میں کورونا وائرس کے پیش نظر ایک وقتی ٹھہراو ضرور پیدا ہوا ہے لیکن اس بحران نے کئی زیریں تضادات کو آشکار کر دیا ہے۔ اس بحران میں دنیا بھر میں حکمران طبقات کی عمومی بے حسی و نااہلی اور سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی دیوالیہ پن آنے والے دنوں میں نوجوانوں کے غصے کو بھڑکانے کا موجب ہی بنے گا۔ ان حالات میں حکمرانوں کے اوچھے اقدامات عوام کے ساتھ بھونڈے مذاق کے مترادف ہیں۔ پاکستان جیسی نااہل سرمایہ داری کے کھوکھلے انفراسٹرکچر میں آن لائن کلاسوں کا اجرا کر دیا گیا ہے جو طلبہ کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ حفاظتی ساز و سامان کی خاطر احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے پر ریاستی تشدد کیا جا رہا ہے۔ تنخواہوں میں کٹوتیاں اور جبری برطرفیاں محنت کشوں کے زخموں کو کرید رہی ہیں۔ ریاستی ریلیف پیکیج بدعنوانی کا نیا بازار گرم کرنے اور غریبوں کی غربت کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ راشن و بنیادی اشیائے صرف کی قلت ہے۔ اور حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے صرف پرفریب اعلانات اور تقاریر ہیں۔ نوجوان اس سب سے نتائج اخذ کر رہے ہیں اور مروجہ نظام کے خلاف ان میں نفرت بھی پنپ رہی ہے۔ اس نفرت کو کوئی ایک بھی واقعہ اظہار مہیا کر سکتا ہے۔ فروری 1917ءکے روسی انقلاب کو یہ اظہار آٹے کی لائن میں لگی محنت کش عورتوں کے بھرپور احتجاج کی صورت میں ملا تھا۔ آج پاکستان کی صورتحال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ آٹے اور اشیائے خورد و نوش کے حصول کی قطاریں آج پورے ملک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ دسمبر 2010ءکو تیونس میں محمد بو عزیزی کی خود سوزی تاریخ ساز عرب بہار کا موجب بنی جس نے دہائیوں سے مسلط مطلق العنان آمریتوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ آج پاکستان میں بھی بھوک سے تنگ آ کر لوگ اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ بھوک کا وائرس کسی بھی وبا سے کہیں زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ ایسے واقعات جن پر انقلابات برپا ہو گئے آج ہر جگہ معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ معمول ٹوٹے گا۔ بعض اوقات بہت بڑے واقعات لوگوں کے کسی فیصلہ کن ردعمل کا موجب نہیں بنتے اور بعض اوقات کوئی ایک بظاہر معمولی سا واقعہ انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی موجودہ بوسیدہ کیفیت ایک سنجیدہ عوامی سرکشی کو برداشت نہیں کر سکے گی اور یہ نظام اپنی کمزور ترین کڑیوں سے ٹوٹتا ہوا بکھر جائے گے۔ جس کے کھنڈرات پر سوشلزم کی عظیم عمارت کی تعمیر ہو گی۔
نوجوانو ں کی ہراول پرتوں پر تاریخی فریضہ عائد ہوتا ہے۔ یہ فریضہ صرف بغاوت کرنے کا نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر بلند حوصلے و ہمت سے بغاوت کو منظم کرنے کاہے۔ پاکستان کے ہراول انقلابی نوجوانوں نے حالیہ عرصے میں طلبہ مسائل کے گرد غیرمعمولی احتجاجات منظم کر کے اپنی انقلابی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن آنے والوں وقتوں کا انقلابی کام کہیں زیادہ استقامت، نظم و نسق اور نظریاتی پختگی کا متقاضی ہے۔ اب بھی کئی اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن مستقبل اس سے کہیں زیادہ کڑے امتحانات لے گا۔ کئی کامیابیاں بھی ہوئی ہیں لیکن فیصلہ کن لڑائیاں ابھی آگے ہیں۔ اس تاریخی طور پہ نااہل اور متروک سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑا دان میں ڈال چکنے کے بعد سوشلسٹ سماج میں انسانیت کا نیا جنم ہو گا۔ اس حتمی معرکے کے لئے خود کو طبقاتی بنیادوں پر متحد، منظم اور متحرک کرنا آج کے انقلابی نوجوانوں کا سب سے اہم انقلابی فریضہ ہے۔
(اویس قرنی ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘ کے مرکزی آرگنائزر ہیں اور ملک بھر میں طلبہ کو انقلابی نظریات پہ منظم اور متحرک کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔)