احتشام حسن
کہا جاتا ہے کہ تعلیم ایک منافع بخش کاروبا ر بن چکا ہے اور اس سب کا الزام اکثر لوگ ان اداروں کے سربراہان یعنی افراد کو ٹھہراتے ہیں۔ آئیں اس مسئلے کو سنجدیگی سے جانچنے کی کوشش کر یں اور دیکھیں کیا واقعی ایسا ہے یا مسئلہ کہیں اور ہے۔ دراصل افرا د نظام کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان کے انفرادی رویے کو ڈھالنے والی سب سے بڑی قوت نظام ہے۔ اس وقت دنیا میں سرما یہ دارانہ نطام رائج ہے جسکی بنیاد نجی ملکیت اور منافع پر قائم ہے۔ لالچ اور ہوس پر مبنی اس نظام میں تمام مقدس پیشے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ڈاکٹر یا طبیب جیسا مقد س پیشہ جسکا مقصد انسانی جان بچانا ہے وہ بھی لالچ پر مبنی اس نطام کی وجہ سے ایک کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پوری دنیاکے ہیلتھ سسٹم اسکی زندہ مثال ہیں۔ بالکل یہی حال تعلیم کابھی ہے۔
بڑی یونیورسٹیاں سکول اور کالج سرمایہ داروں کی نجی ملکیت ہیں۔ جنکی واحد غرض معیار ی تعلیم نہیں بلکہ منافع ہے۔اسی وجہ سے اساتذہ کی تربیت، معیاری نصاب، تعلیمی نفسیات اور اس جیسے کئی اہم معاملات نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ یہ سرمایہ داروں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں جہاں اساتذہ سے انتہائی قلیل تنخواہ کے عوض مزدوروں کی طرح کام کرایا جاتاہے۔ یہ سب اسلئے ہے کیونکہ سرمایہ دار کیلئے تعلیمی ادارے فیکٹریاں ہیں اور ان میں کام کرنے والے اساتذہ مزدور۔ایسے تعلیمی نظام سے معیاری تعلیم کی توقع رکھنا محض خام خیالی ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک کے تعلیمی نظام بھی اسی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ہمارے ملک پاکستان میں بھی تعلیمی اصلاحات کے باوجود تعلیم و تحقیق کا معیار بد سے ابتر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے لئے ایسی پالیسی نہیں بنائی جاتی جہاں تحقیق کا کلچر فروغ پائے بلکہ صرف ڈگریاں دینے پر زور دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی اکثریت اپنے مضمون اور اسکی عملی شکل سے ناواقف ہوتی ۔ ایسے طلبا ء کو ملازمت ملنا بہت مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ ایسا کیا کیا جائے کہ تعلیمی نظام لالچ اور ہوس کے گھن چکر سے پاک ہوجائے۔ اس کے لئے ہمیں دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ان سب اداروں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان تمام اداروں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔انکی تمام فنڈنگ اور سہولیات ریاست کی طرف سے دی جاتی ہیں۔ دنیا کے تمام کامیاب تعلیمی نظام اسی اصول کی بنیا د پر کام کرتے ہیں۔اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے لالچ اور پیسے کمانے کے بجائے تعلیم و تحقیق پر توجہ دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا کا بہترین تعلیمی نظام فن لینڈ کا ہے۔ وہاں تعلیم مکمل طور پر ریاستی سرپرستی میں ہے۔ وہاں کوئی نجی تعلیمی ادارہ نہیں۔ اس وجہ سے اساتذہ کوتمام سہولیات میسر ہیں اور انکو سرکاری پروٹوکول تک دیا جاتاہے۔ لیکن وہاں ایک اور چیز بھی قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ فن لینڈایک سوشلسٹ جمہوریت ہے۔ اسلئے اگر ہمیں پاکستان میں تعلیمی نظام کوبدلنا ہے تو پہلے موجودہ فرسودہ ریاستی نطام کو ایسے نظام سے بدلنا ہوگا جسکی ترجیح فلاح و بہبود ہو۔ ایسے نظا م میں تعلیم اگر ریاست کے حوالے کی جائے تو یقینا بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔