رپورٹ: افراسیاب
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ سندھ حکومت نے سکول کے بچوں کے لیے ایک ڈیسک 29 ہزار 5 سو میں خریدا ہے۔ اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیراعلی سندھ کو ایک خط لکھا ہے۔ جس میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم نے 2 بچوں کے بیٹھنے کے لیے ایک ڈیسک 29 ہزار 5 سو میں خریدا جس کی شرح اصل ریٹ سے 320 فیصد زیادہ ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ٹینڈرز کے لیے بولی دہندگان سے موصول ہونے والی قیمت 5،700 روپے سے لے کر 6،860 روپے فی ڈیسک تھی، جس میں تمام ٹیکس بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود متعلقہ محکمے نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹینڈرز کو 320 فیصد زیادہ شرح پر قبول کیا ہے جس سے قومی خزانے کو تقریبا 3.3 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس لیے ٹی آئی پی نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے درخواست کی ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جائے اور ملوث ارکان کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے۔
یہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد مختلف طالبہ تنظیموں کی طرف سے اس عمل کی مذمت کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر محسن ابدالی نے سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ سرکاری سطح پر جاری کردہ تعلیمی کوالٹی انڈیکس دیکھیں تو اس لسٹ میں آخر پر آنے والے اکثر اضلاع کی تعداد سندھ سے ہے۔ جس کی وجوہات اب سامنے آ رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی تعلیمی بجٹ انتہائی کم رکھا جاتا ہے۔ جو کی تمام آبادی کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔ اور اس میں سے بھی بڑی مقدار سیاست دان اور بیوروکریسی میں بیٹھے بھیڑیے کھا جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جس کے خاتمے کے لیے عوام کو طاقت میں بیٹھے ان مٹھی بھر افراد کے سامنے کھڑا ہونا ہو گا۔