تحریر: سلمان درانی
!امریکہ میں سیاہ فام تحریک اور پاکستان میں پشتون تحفظ تحریک ایک سی تحریکیں ہیں
خبر تو یہ تھی کہ امریکہ کی ریاست مینیسوٹا میں ایک سیاہ فام کو سفید فام پولیس والے نے اس وجہ سے مار دیا کہ اس نے کریانہ اسٹور سے چیز خریدی اور اس کا 20 ڈالر بل ادا نہیں کیا – مگر حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کئی عرصے سے یہ لاوا بن رہا تھا اور اب جا کر پھٹا. اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکی سیاہ فام صرف ایک واقعے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے اور باقائدہ تحریک شروع کردی. پاکستان کی پشتون تحفظ تحریک کا آغاز بھی کراچی میں نقیب محسود نامی ایک پشتون نوجوان کے قتل کے بعد ہوا مگر اس بات سے ہم یہ اخذ نہیں کرسکتے کی پشتونوں سے پاکستان میں یہ رویہ کوئی نئی بات ہے.
اگر ہم اس کا تجزیہ کرنا شروع کریں اور دونوں ممالک کی تحریکوں کا جائزہ لیں تو بہت سی چیزیں مشترک نظر آتی ہیں. مجھے ‘ہیلری کلینٹن’ کا الیکشنز کے دوران کہا ایک جملہ یاد آرہا ہے جب خاتون نے ایک مجمعے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ‘ہم سب کی زندگیاں اہم ہیں’، یہ ہیلری نے یونہی نہیں کہہ دیا تھا بلکہ اس وقت ایک نعرہ ہر جانب گونج رہا تھا اور وہ یہ تھا کہ ‘سیاہ فاموں کی زندگی اہم ہے’. اس کا موازنہ ہم پاکستان کی پشتون تحفظ موومنٹ سے کریں تو ہمیں ایسی ہی مثال یہاں بھی ملتی ہے. آپ کو معلوم ہے ہیلری نے ایسا آخر کیوں کر کہا تھا؟ اس لیئے نہیں کہ سب کی زندگی اہم ہے، اس لیئے کہ ان کے اس بیان سے کالوں کی تحریک کو نقصان پہنچے گا اور لوگ ایک نئے بیانیے کے پیچھے لگ جائیں گے. پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مقابلے میں پاکستان تحفظ موومنٹ بنائی گئی جو اس پروپیگنڈے میں ایک چھوٹا سا اضافہ تھا جو کہ چند سرکاری اداروں اور سوشل میڈیا پر چلنے والے دوسرے پلیٹ فارمز سے پہلے سے ہی جاری تھا.
خیر نہ ہی ہیلری کے اس بیان سے سیاہ فاموں کی اس تحریک میں کوئی خاص فرق پڑا اور نا ہی پشتون تحفظ موومنٹ کو حب الوطنی کی پیکنگ میں بند اس مہم نے کوئی نقصان پہنچایا. خیر ایسا بھی نہیں ہے کہ ان تحریکوں کے خلاف طاقتیں اتنی کمزور ہیں کہ وہ کچھ کر نہیں سکتیں. بلوچستان میں ارمان لونی کا قتل جو کہ اس پوری مہم کے دوران ہی ہوا ایک اہم مثال ہے. یہ بھی مت بھولیئے کہ کس طرح سے نقیب محسود کے بزرگ باپ کو غلیظ پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اس کو اتنا مجبور کیا کہ اس نے اس کیس سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا. آخر کار راؤ انوار جیت گیا اور حق ہار گیا. اب آپ اس سوال کا جواب کھوجیں کہ راؤ انوار اس ریاست کے لیئے کتنا اہم تھا کہ اس کو بچانے کے لیئے ریاستی سطح پر ایک محاذ لڑا گیا اور اس کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو کچل دیا گیا. دلچسپ امر یہ کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جارج فلوڈ کو مارنے والا سفید فام پولیس والا اپنے انجام تک بھی پہنچے گا یا نہیں کیونکہ امریکہ میں سیاہ اور سفید کے ساتھ برتاؤ تو ہمیشہ سے ہی الگ رہا ہے.
آج بھی امریکہ کی پچانوے فیصد جیلیں ان کالوں سے بھری ہیں جن کو سفید فام پولیس نے چوری چکاری، قتل و غارتگری یا دیگر کئی جرائم کرنے پر پکڑا ہوگا. اس پر ہم سوال اس پسے ہوئے طبقے سے کریں یا اس ریاست سے جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کہتی ہے، سرمایہ داری کا سب سے بڑا قلعہ ہے، کامیابی کا سب سے بڑا نشان ہے اور دنیا کو اپنی ترقی کے ڈولے دکھا دکھا کرمتاثر کرتے رہے ہیں؟ امریکہ تو کامیابی کو آخری حدیں چھوتی ہوئی سرمایہ داری کی وہ مثال تھی جس نے سوویت یونین کو ہر میدان میں چت کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے اور اب لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سوشلزم تو اب متروک ہوچکا ہے اب صرف سرمایہ داری کی اگلی منازل کی بات کی جائے کیونکہ یہی وہ آخری آپشن ہے جس پر دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کو چلنا ہے. تو ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں کہ اسی ملک میں آج عوام کورونا وائرس سے نہیں بلکہ صحت کی سہولیات نہ ملنے سے مرر ہے ہیں. یاد رہے امریکہ تاحال ایک ایسا ملک ہے جس کو کورونا وائرس نے سب سے زیادہ متاثر کیا. اور وہ لوگ جن کے پاس صحت کی انشورنس نہیں ہے، وہ علاج کے اہل نہیں ہیں، اور ایسا طبقہ امریکہ میں زیادہ تعداد میں سیاہ فام طبقہ ہی ہے جن کے پاس نا صحت کی سہولیات ہیں، نہ تعلیم کی اور نا ہی بہتر روزگار کی. ان کو بہتر زندگی جینے کا کوئی حق اس ملک میں نہیں ہے جو ملک دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے. پھر ہم ان سے توقع کریں کہ یہ لوگ چوریاں نہیں کریں گے، سفید فاموں کے گلے نہیں کاٹیں گے تو ہم سے بڑا احمق کوئی نہیں ہوگا.
اور اگر آپ اس طرح کی بنیادی سہولیات عوام کو برابری سے نہ دے پا رہے ہوں تو چاہے آپ باراک اوبامہ جیسے سیاہ فام مسلمان کو صدر بنا دیں، آپ دنیا کو تو ثابت کر دیں گے کی آپ کس قدر برابری کے قائل ہیں، مگر ملک کا سب سے اہم مسئلہ، وسائل کی برابر تقسیم اور برابر زندگی کا حق، کبھی حل نہیں کر پائیں گے. پاکستان کی بات کروں تو ہمیں دو اہم واقعات صورتحال کو بہت آسانی سے واضح کردیں گے. کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ دفاعی بجٹ کی بڑھوتی کی خبریں گونج رہی تھیں اور ایک دم بند کروا دی گئیں. اب اہم بات یہ کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کردیا گیا ہے، اور اس سے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا. یہی جنگ ہے جس کا تعلق اشرافیہ اور استعماری طاقتوں سے ہے اور اس ملک کا ہر مظلوم طبقہ اس دنیا میں صرف اس لیئے آیا ہے کہ وہ ظلم کی چکی میں پستا رہے، اپنے حق کی آواز اٹھائے اور پھر کہیں تاریک راہوں میں مارا جائے. مگر اس سب میں کسی بھی ایک سبق سیکھنے کے لیئے کافی ہے، ہمیں اگر ان مسائل کے خلاف صرف باتیں نہیں کرنی اور کچھ عملی طور پر کرنا ہے، تو راستہ وہی ہے جو امریکہ کے سیاہ فاموں نے اپنایا ہوا ہے، پاکستان کے ہر طبقے کو اس تحریک کا بغور جائزہ لینا چاہیئے کیونکہ یہ جنگ صرف سیاہ سفید کی جنگ نہیں ہے، یہ ان وسائل کی جنگ ہے جن کو سرمایہ داری نظام عام انسان سے دور رکھنا چاہتا ہے، اور اس کے لیئے وہ نسلی و طبقاتی تقسیم کا سہارا لیتا ہے.