رپورٹ: انضمام میراج
گزشتہ چند دنوں سے گومل یونیورسٹی کے طلبہ انتظامیہ کی جانب سے آن لائن کلاسز لینے کے بعد امتحانات فزیکل لینے کے اعلان پر برسرِ احتجاج ہیں۔
تفصیلات کے مطابق طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے انکی آن لائن کلاسز لی گئی ہیں، جبکہ آن لائن پڑھائی میں لیکچر کا معیار یہ ہوتا تھا کہ لیکچرار یوٹیوب لنک اور پی ڈی ایف فائل طلبہ کو سینڈ کردیتے تھے۔ جس سے سمجھنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔طلبہ کا کہنا تھا کہ آن لائن لیکچر میں اساتذہ سراسر جان چھڑاتے تھے۔
اس حوالے سے طلبہ حقوق کی تنظیم پراگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے راہنما احتشام حسن نے سٹوڈنٹس ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ فزیکل امتحانات لے کر صرف طلبہ سے فیسیں بٹورنا اور طلبہ کے ایگریگیٹ کم کرنا چاہتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ جب آن لائن لیکچر دیے جاسکتے ہیں تو آن لائن امتحان کیوں نہیں لیے جاسکتے اور پھر یہ کہ انھوں نے 12 جنوری سے فزیکل امتحانات کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیر تعلیم نے یونیورسٹیاں 1 فروری سے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
اسی حوالے سے سوشل ایکٹویسٹ صدام شیرانی نے بھی سٹوڈنٹ ہیرالڈ سے بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ عام طور پہ ہم اپنے تعلیمی اداروں کو مادر علمی کہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے سوتیلی ماں سے کم نہیں ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ وہ گومل یونیورسٹی کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ فزیکل امتحانات کا اعلان کرکے طلبہ پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی بجائے انکے آن لائن امتحانات لینے چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نا صرف امتحانات بلکہ فیسوں کی مد میں بھی طلبہ کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ طلبہ اس وقت کوئی سہولت استعمال نہیں کر رہے لیکن ان سے فیس پوری لی جا رہی ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔