پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے گزشتہ روز آنلائن کلاسوں اور فیس کے خلاف اور طلبہ یونینز کی بحالی کے حق میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے 25 سے زائد شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جن میں متعلقہ علاقوں کے طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔
گزشتہ تین ماہ سے مختلف طلبہ آنلاین کلاسوں اور بھاری فیسوں کے خلاف بارہا احتجاج کر رہے ہیں اس دوران سب سے بڑا احتجاج سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے 23 جون کو ملک کے 35 شہروں سے بیک وقت کیا گیا۔ پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے گزشتہ دن ہونے والا احتجاج تین ماہ سے ہونے والے احتجاجوں کی ہی کڑی ہے
پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے یہ احتجاج اسلام آباد، کراچی ،پیشاور سمیت صوبہ خیبرپختونخوا کے 20 اضلاع، اور صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع میں ریکارڈ کرایا۔
دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور یونیورسٹی کے سیکرٹری جنرل ملک حسنین کا کہنا تھا کہ انکی تنظیم وبا کے روز اول سے بے ضابطہ آن لائن کلاسوں کے خلاف رہی ہے۔ ہم اس ناقابل عمل آنلائن نظام تعلیم کو مسترد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم فیس میں کمی اور طلبہ یونینز پر غیر آئینی پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہماری تنظیم وائس چانسلرز کی مدت ملازمت میں توسیع کی خلاف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملگ گیر احتجاج کے ذریعے ہم وفاقی وزراء کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے تو وہ تعلیمی پالیسی سازی سے گریز کریں۔
اس حوالے سے جب ہم نے طلبہ تنظیم پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو کے رہنما علی رضا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو پی ایس ایف کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان طلبہ کے مسائل کو فی الفور حل کرے۔