حارث احمد خان
کل مورخہ 28 دسمبر 2020 کو قراقرم یونیورسٹی کے دو طلبہ فیصل اور توقیر کو کیمپس میں جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ یونیورسٹی میں کئی ماہ سے متواتر جنسی ہراسانی کے واقعات پیش آ رہے تھے جن میں انتظامیہ اور اساتذہ براہ راست ملوث تھے۔ طالبات نے ذمہ داران کے خلاف درخواست بھی حمع کروائی مگر کوئی ردعمل نہ آیا۔ بلکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر عہدیداران واقعے میں ملوث افراد کی پشت پناہی کرتے رہے۔ جس پر طلبہ نے احتجاج کا اعلان کردیا۔ گزشتہ ماہ ہونے والے اس احتجاج میں سینکڑوں طلبہ بالخصوص خواتین نے بھرپور شرکت کی تاکہ ان کے مسائل عوام اور حکام بالا تک پہنچ سکیں اور ان کے حل کے لیے کارروائی کی جائے۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسائل حل کیے جاتے انتظامیہ نے احتجاج کے منتظمین کو گرفتار کروا دیا۔ فیصل اور توقیر دونوں اس وقت قراقرم یونیورسٹی پولیس تھانے میں بند ہیں۔
پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو نے واقعے کی بھرپور مذمت کی۔ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی ترجمان کلثوم فاطمہ نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کے ساتھ انتظامیہ اور پولیس کا اس طرح کا رویہ ناقابلِ برداشت ہے۔ اول تو انہیں یونیورسٹیاں میسر ہی نہیں ہیں جہاں میسر ہیں وہاں انتظامیہ کھلی بدمعاشی کرتی ہے۔ طلبہ کو جنسی اور ذہنی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور جب وہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو پھر وہی زیر عتاب آتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتار طلبہ کو فوری رہا کیا جائے اور کیمپس میں جنسی ہراسانی کے ذمہ دار افراد کو گرفتار کر کے نہ صرف سزائیں دی جائیں بلکہ ہراسانی کے واقعات سے نبٹنے کے لیے خواتین طلبہ پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔