علی رضا
دنیا اس وقت انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہی ہے ۔کرونا وائرس کے باعث بند ہونے والے کاروبار نے درمیانے طبقہ کو غریب اور غریب کو غریب تر کر دیا ہے دھیاڑی دار طبقہ اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو کہ اکثریت میں ہے۔
طالب علم بھی اس بحران سے معاشی طور پر اتنا ہی متاثر ہوئے ہیں کہ وہ بھی انھیں طبقات کا حصہ ہیں۔ بہت سے طالب علم شہروں میں تعلیم کے ساتھ جز وقتی ملازمت کر کے اپنی فیس اور دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں اور بعض طلبہ کے خاندان کی کفالت بھی اسی جز وقتی ملازمت کی مرہون منت ہے جو کہ مکمل طور پہ ختم ہو چکی ہیں کیونکہ یا تو وہ کمپنیاں ( جہاں وہ ملازمت کرتے تھے) بند ہو چکی ہیں یا 24 گھنٹے کے نوٹس پر ہوسٹل سے نکالے جانے کے باعث طلبہ ملازمت چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ چکے ہیں۔
پوری دنیا میں اکثریت کو بقا کا مسلہ درپیش ہے اس لیے پوری دنیا کی حکومتوں کی کوشش ہے کہ اس بحران سے متاثر ہونے والے طبقات کو ریلیف دیا جائے تاکہ کم سے کم زندگی کا پہیہ چلتا رہے کہ افراد ہی نا رہے تو وہ حکمرانی کس پرکریں گے؟
پاکستان میں بھی ریاستی سطح پر اعتراف کر لیاگیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو فاقوں کا سامنا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ بہت سے لوگ بھوک سے مریں گے۔
اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے کئی پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں بڑے کاروباری حضرات کو تو کئی سو ارب لاک ڈاون کے پہلے 24 گھنٹوں میں جاری کر دیے گئے تھے دوسرے شعبہ جات کو بھی ریلیف پہنچانے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن حکومت کے ایجنڈے سے طالب علم بالکل غائب ہیں ان کو ریلیف دینا تو درکنار فیس چالان جاری کیے جا رہے ہیں جو کہ اس بحرانی صورتحال میں انتہائی افسوسناک ہے۔
حکومت احساس پروگرام کے تحت بھوک سے مقابلے کے لیے مہینہ وار فی خاندان کو تین ہزار روپے جاری کر رہی ہے(چار ماہ کا بارہ ہزار)۔ حکومت کا دعوی ہے کہ یہ امداد ایک کروڑ چالیس لاکھ خاندانوں کو دی جایے گی۔ روٹی کیلیے تین ہزار دے کر فیس کی مد میں پچاس ہزار مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سمجھ سے بالاتر فیصلے کرنا تو اس حکومت کا معمول بن چکا ہے۔
طلبہ کی معاشی حالت تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے پڑھائی،مقالہ اور ڈگری کے بارے میں بے یقینی اور اب فیس نہ جمع کروانے پر انتظامیہ کی جانب سے بھاری جرمانہ اور جامعات سے نکالے جانے کی دھمکیاں طلبہ کی ذہنی صحت بھی تباہ کر رہی ہیں جو کہ غیر متوقع طور پر گھروں میں بند ہونے کے باعث پہلے ہی شدید متاثر ہوئی ہے۔
پرائیویٹ شعبہ کی جامعات کا رویہ اس سے بھی بدتر ہے انھوں نے تو موجودہ فیس برقرار رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور موجودہ صورتحال کے تقاضوں اور قوانین کا خیال کیے بغیر فیس میں 10 سے 50 فیصد کا منمانہ اضافہ کر دیا ہے۔ایسا لگتا ہے یہ تعلیمی ادارے نہیں مافیا ہیں کیونکہ ادارے تو مشکل حالات میں اپنے افراد کا تحفظ کرتے ہیں لیکن اس بحرانی صورتحال میں بھی ان کا مقصد دھونس و دھمکی کے ذریعے منافع کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اگر اس بحران کی صورتحال کے باعث فیس کم کرنے کی اخلاقی ذمہ داری کی بات نہ بھی کریں یا اس تعلیمی نظام کو صرف ایک کاروبار مان لیں تو کاروبار کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور بنیادی اصول ہے کہ گاہک سہولیات کے مطابق معاوضہ ادا کرے گا۔
آج جامعات بند ہو چکی ہیں آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم دی جا رہی ہے طالب علم بس،لائبریری،سوسائیٹیوں،پانی اور بجلی وغیرہ کی مد میں بھاری فیسیں دیتے ہیں آج جب وہ ان سہولیات سے مستفید ہی نہیں ہو رہے تو وہ اس مد میں بھاری فیسیں کیوں ادا کریں؟ اس لیے جامعات کو اس فیس کا ہی حق ہے جو ورچوائل یونیورسٹی آن لائن کلاسوں کی مد میں لیتی ہے ۔ جامعات کے رویے سے صاف ظاہر ہے کہ ان سے تو طلبہ کی بہتری کی توقع بے سود ہے اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فی الفور مداخلت کر کے طلبہ کے مسائل حل کروائے تا کہ کوئی طالب علم اس دباو اور استحصال سے تنگ آ کر شہداد بلوچ کے رستہ پر نہ چل پڑے۔