تحریر: حسنین جمیل فریدی
‘سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے’ اور ‘جب لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا’ کے نعروں سے مقبول ہونے والی طلبہ تحریک نے بائیں بازو کی سیاست کو اک نئی جلا بخشی۔ یقیناً ہماری اس تحریک نے نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی جمود کو توڑا اور ان میں ایک نئی انقلابی روح پھونک دی۔ جسکا عملی مظاہرہ طلبہ یکجہتی کے دوران دیکھنے کو ملا جب ملک کے 55 شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اپنا بنیادی حق مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلے۔
گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے طلبہ مارچ پہ لال لال کیا لہرایا کہ حکمرانوں کے ایوان میں لرزہ طاری ہوگیا تو ریاست نے ہمیشہ کی طرح جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کی سر توڑ کوشش شروع کر دی۔
طلبہ مارچ لاہور کے فوراً بعد ہمارے ساتھیوں پر غداری کے مقدمات بنائے گئے ، ہمارے ایک ساتھی عالمگیر وزیر کو یونیورسٹی سے اغواء کرنے کے بعد ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس ریاستی جبر سے ہمارے حوصلے پست نا ہوئے بلکہ ہم نے یکجا ہو کر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے احتجاج کئے، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائی، تاریخیں بھگتیں, کچہریوں ،عدالتوں اور جیلوں کے چکر کاٹے۔ ان کٹھن حالات میں بہت سے ساتھیوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہمارے شانہ بشانہ ہماری ہر تحریک کا حصہ بنے۔
“لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے” ڈھیروں جہتوں کے بعد بالآخر ہمارے ساتھیوں کو بری کیا گیا۔ عالمگیر وزیر کو تقریباً چھے مہینے جیل میں رکھ کر رہا کیا گیا۔ بہت سے ناقدین جو ہم پہ تنقید کے وار جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں سے بہت سے افراد نے کسی بھی جگہ ہمارا ساتھ نا دیا مگر وہی افراد تنقیدی وار کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
بے شک نومبر میں ہونے والا طلبہ یکجہتی مارچ پاکستان میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے مل کر منعقد کیا مگر ہمارے نعروں کی مقبولیت کے باعث لاہور اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ سوشل میڈیا، ٹی وی انٹرویوز ، تقریروں اور تحریروں کے باعث ہم چند ایک طلبہ اس تحریک کاچہرہ بن کر سامنے آئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پیچھے بہت سے ایسے کردار ہیں جنہوں نے اس مارچ کو کامیاب بنانے میں ہم سے بھی زیادہ اہم اور قلیدی کردار ادا کیا۔
ہماری تنظیم اور سیاسی تربیت کا خاصا ہے کہ یہاں لیڈر بن کر کوئی نہیں رہنا چاہتا بلکہ ہمارا ہر کامریڈ بحثیت ورکر مختلف مراحل میں اپنی نظریاتی تربیت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نظریاتی سیاسی اصول کی بناء پر ہم تمام ساتھی جو طالب علم نہیں رہے انہوں نے طلبہ تحریک کی قیادت موجودہ حقیقی طلبہ کے حوالے کردی اور نظریاتی سیاست کی ایک اور سیڑھی چڑھتے ہوئے نوجوانوں، مزدوروں اور کسانوں کی نئی سیاسی تحریک ‘حقوقِ خلق موومنٹ’ سے منسلک ہوگئے۔
جدوجہد جاری تھی کہ اسی دوران ہمارے ساتھی محسن ابدالی کو جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑا ، ہمارے ساتھی عمار راشد سمیت دیگر کامریڈز کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا، سندھ میں ہماری ساتھی سندھو نواز کو حراساں کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں، بلوچستان میں طلبہ حقوق کی آواز اٹھانے والے طلبہ کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا، کشمیر، گلگت، فاٹا اور دیگر علاقوں سے گاہے بگاہے ہمارے ساتھیوں پر ریاستی جبر کی خبریں موصول ہوتی رہیں مگر ہم ڈٹے رہے اور مل کر ہر جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور بہت حد تک کامیاب ہوئے۔
ان مسائل اور محدود وسائل کے باوجود تنظیم سازی کا کام تیزی سے آگے بڑھایا۔ وسائل کی قلت کے باعث ہم بہت سی ایسی جگہوں پہ نا جا سکے جہاں سے ہمیں دعوتیں موصول ہوئیں۔ مگر یہ بھی ہماری تنظیم کا خاصا ہے کہ ان محدود وسائل میں بھی ہر ایک ساتھی نے ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے تنظیم کا کام آگے بڑھایا۔ جس میں پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو اور حقوقِ خلق موومنٹ کا بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں میں تنظیم سازی کرنا باعثِ صد افتخار ہے۔
کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے دو دن قبل ہم سب لاہور پریس کلب کے باہر ہمارے ساتھی عالمگیر وزیر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے مگر اچانک لاک ڈاؤن اور شہروں کے بند ہونے کی وجہ سے بہت سے ساتھیوں کو اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جانا پڑا۔ یہ ایک نظریاتی کمٹمنٹ ہی ہے کہ ہم سب نے اپنے شہروں میں جا کر سیاسی کام شروع کر دیا۔ علاوہ ازیں ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکزی سیاسی کام کو مزید تیز کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی دوران ہم نے کچھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو تشکیل دیا جن میں ہفتہ وار طلبہ میگزین ‘دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ’ کی اشاعت شروع کی گئی۔ بائیں بازو کے نئے جرنل ‘ پاکستان لیفٹ ریویو’ کی بنیاد رکھی گئی جس میں محقیقین اور سینئر لکھاریوں کا نظریاتی اور تحقیقی کام شائع کیا جارہا ہے۔ بائیں بازو کے نظریات کو مزید عوامی بنانے کیلئے ایک یو ٹیوب چینل ‘مقدمہ’ کے نام سے شروع کیا گیا جس میں تاریخ، سیاسیات، سماجیات ، معاشیات ، تھیوریز اور دیگر موضوعات پر باقاعدگی سے لیکچرز دئیے جاتے ہیں۔
وباء کے اس بحران میں جب حکومت نے محنت کشوں اور مزدوروں کی سرپرستی کرنے سے انکار کر دیا تو ہم نے حقوقِ خلق موومنٹ کے زیر سایہ اپنی مدد آپ کے تحت ‘لیبر ریلیف کیمپین’ کا آغاز کیا جس میں نوکریوں سے محروم مزدوروں میں راشن تقسیم کیا گیا۔ اس راشن ڈرائیو کے دوران بہت سے ساتھیوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ دوستوں نے اپنی مدد آپ اور عوامی اپیل کے تحت چندہ اکٹھا کیا۔ لاہور، کراچی، مرید کے، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، لیہ، مردان، ملتان اور پاکپتن سمیت دیگر کئی شہروں کے مزدوروں میں راشن تقسیم کیا گیا۔ (ابھی تک تقریباً چار ہزار مزدوروں میں راشن تقسیم کیا جا چکا ہے)
دوسری طرف ہمارے طالب علم ساتھی انٹرنیٹ کی سہولیات نا ہونے کے باعث تعلیم سے محروم طالب علموں کی آواز بنے رہے۔ بلوچستان ، فاٹا، کشمیر ، گلگت ، سندھ اور پنجاب کے بہت سے ایسے علاقے جو انٹرنیٹ ، تھری اور فور جی سہولیات سے محروم ہیں، ہمارے شہروں میں رہنے والے طلبہ کی طرف سے آن لائن کلاسز کے نام پر ہونے والے تعلیمی استحصال کے خلاف ایک بھر پور کیمپین کا آغاز کیا گیا۔ پچھلے دنوں 23 جون کو سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی طرف سے پاکستان بھر کے 35 سے زائد شہروں میں آن لائن کلاسز اور وباء کے ان دنوں میں فیسوں کے مطالبے کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا گیا جسے منعقد کرنے میں پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو نے کلیدی کردار ادا کیا۔
اسی دوران سوشل میڈیا، زوم , کالز اور وٹس ایپ کے ذریعے تنظیم سازی کے عمل کو تیزی سے بڑھایا گیا۔
وباء کی اس صورتحال میں ہمیں بہت عرصہ بعد اہل خانہ کے ساتھ رہ کر پڑھنے کا موقع ملا جس کے باعث خاندانی زندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ میری ذاتی اطلاعات کے مطابق ہمارا کوئی ایسا ساتھی نہیں جس نے ان دنوں کسی کتاب کا مطالعہ نا کیا ہو البتہ میں خود ان مہینوں میں پندرہ سے زائد کتب مکمل کر چکا ہوں۔
قرنطینہ کے انہی ایام میں کامریڈز کی نظریاتی تربیت کیلئے آن لائن سٹڈی سرکلز منعقد کروائے جارہے ہیں جس میں بہت سے موضوعات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ سٹڈی سرکلز میں لینن، ٹروٹسکی، ماؤزےتنگ ، روزا لکسمبرگ ، امبیدکر سمیت بہت سی شخصیات کے سیاسی کام کو تفصیل سے پڑھا گیا ہے۔ ان سٹڈی سرکلز میں نئے اور پرانے تمام ساتھی بھرپور شرکت کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کرنے سے بے روزگار ہونے والے مزدوروں کی سرپرستی تو درکنارحکومت نے اسے کھول کر بھی استحصالی سرمایہ داروں کا محاسبہ نا کیا۔ ان حالات میں حقوقِ خلق موومنٹ کے تحت مزدوروں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کیخلاف بھر پور مہم چلائی گئی جس میں ہم نے کچھ کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ اس مہم کی بنیاد پر چن ون فیکٹری اور ماسٹر مولٹی فوم کے مزدور اپنی فیکٹریوں سے تنخواہیں لینے میں کامیاب ہوئے۔ ان نامساعد حالات میں حکومت خود روزگار دینے کی بجائے اسے عوام سے چھینتی رہی جس کے تحت سٹیل مل ملازمین کو نوکریوں سے بر طرف کر دیا گیا۔ وباء کے ان حالات میں ہم نے اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر نکل کر ان مزدوروں کیلئے آواز اٹھائی۔
حقوقِ خلق موومنٹ ، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو، لیبر ریلیف کیمپین ، دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ، پاکستان لیفٹ ریویو ، روزنامچہ جدوجہد (اردو) ، (یوٹیوب چینل ) مقدمہ , ویب نارز، میٹنگز، تنظیم سازی، رابطے اور سیاسی تربیت سمیت تمام اہم سیاسی کام یکمشت جاری ہیں۔ طلبہ، مزدوروں، کسانوں، خواتین، مظلوم قومیتوں اور بے روزگاروں کے حقوق کیلئے حقوقِ خلق موومنٹ بھر پور میدان عمل میں ہے اور تمام مظلوم آوازوں کو ایک جگہ جوڑنے کیلئے کوشاں ہے۔ لہٰذا ناقدین کا یہ خیال کرنا کہ انہیں کچھ نظر نہیں آرہا تو شاید انسان وہی دیکھتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔ ان تمام کاموں کی تصدیق آپ ہمارے فیس بک پیجز ، ٹویٹر اور انفرادی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کر سکتے ہیں۔
ہم ان تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا اور انکے بھی تہہ دل سے ممنون ہیں جو تنقید کر کے ہماری اصلاح کا باعث بنتے ہیں۔ مگر شاید اب وقت آچکا ہے کہ ہم تنقیدی وار کرنے کی بجائے گراؤنڈ پہ حقیقی جدوجہد کریں۔ ہماری لڑائی بہت بڑی اور طویل ہے، ہمارا مقصد بڑا ہے اور ہمارا حریف طاقت ور ہے لہذا ہمیں دانشمندانہ بحثوں سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ایک دوسرے کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ ہماری جنگ انفرادی نہیں اجتماعی ہے اسے اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ہی جیتا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہمارا مقصد اس جدوجہد سے جڑے لوگوں کو توڑنا نہیں بلکہ جوڑنا ہونا چاہئیے۔