رپورٹ: دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ
کوئٹہ میں آن لائن کلاسوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ گرفتار
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں انٹر نیٹ کی فراہمی کے بغیر آن لائن کلاسوں کے اجراء کے خلاف طلبہ کئی روز سے احتجاج پر ہیں۔ جب آن لائن کیمپین کے ذریعے آواز اٹھانے والے طلبہ کی آواز نا سنی گئی تو انہوں نے کرونا کے ان سنگین حالات میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر سڑکوں پہ نکلنے کا فیصلہ کیا۔ جس سلسلے میں کل پورے پاکستان میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام ملک بھر کے 35 سے زائد شہروں میں احتجاج کئے گئے۔
اس سلسلہ میں آج بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک پر امن مظاہرہ کیا جارہا تھا ، آن لائن کلاسوں سے تنگ طلبہ پریس کلب سے ہائی کورٹ کی طرف جارہے تھے کہ پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ گرفتار کرنے والے طلبہ میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے کنونیئر مزمل خان اور بلوچستان ایکشن کمیٹی کے جیاند بلوچ سمیت 60 کے قریب طلبا وطالبات شامل ہیں۔ تقریباً 10 خواتین طالبات کو لیڈیز پولیس اہلکاروں کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں تمام ترقی پسند طلبہ تنظمیں اور سیاسی جماعتیں اس ریاستی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ پر امن طریقہ سے احتجاج کرنا انکا آئینی حق ہے۔ ریاست کا یہ رویہ ان کے تعلیمی استحصال کے غم و غصہ کو مزید طوالت دیگا۔ اس اثناء میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹیو نے طلبہ کی اس گرفتاری اور ریاستی جبر کے خلاف کل ملک بھر میں احتجاج کر اعلان کر دیا ہے۔