رپورٹ: انضمام میراج
گزشتہ دنوں خیبر پختونخواہ میں گومل یونیورسٹی میں طلبہ کی فیسوں میں بڑے پیمانے پر فراڈ سامنے آیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پچھلے سمیسٹر کی فیس کے طور پر تین شعبہ جات کی طرف سے 7.8 ملین روپے اکٹھے کیے گئے تھے مگر یونیورسٹی کے بینک اکاؤنٹ میں وہ رقم جمع ہی نہیں کروائی گئی۔
یونیورسٹی کی طرف سے بنائی جانے والی انکوائری کمیٹی کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ یونیورسٹی کے تین شعبہ جات جن میں شعبہ قانون، فارمیسی اور شعبہ ویٹرنی شامل ہے، کی جانب سے طلبہ کی فیسوں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا گیا۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پرائیویٹ بینک کی جانب سے اس مقصد کے لیے مختلف جعلی مہریں استعمال کی جاتی رہیں۔
یونیورسٹی کی جانب سے بنائی جانے والی انکوائری کمیٹی کے ایک ممبر کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے اس سارے معاملے کی بڑے لیول پر انکوائری کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات سے کہا گیا ہے کہ وہ مارچ 2018 سے طلبہ کی جانب سے جمع کروائی جانے والی فیسوں کی تفصیلات کی تصدیق کرکے رپورٹ انکوائری کمیٹی میں جمع کروائیں۔
جبکہ یونیورسٹی کے کلیریکل سٹاف کو یہ ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ طلبہ کی جانب سے صرف اسی فیس سلپ کو قبول کریں جن پہ کمپیوٹرائزڈ مہر لگی ہو۔
زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر منصور الہی بابر جو کہ گومل یونیورسٹی کا بھی اضافی چارج رکھتے ہیں کی جانب سے بھی اس معاملے کی تصدیق کی گئی ہے، جس میں انکی جانب سے کہا گیا ہے کہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پانچ افراد پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو کہ اس معاملے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات کرے گی۔
اس معاملے پر سٹوڈنٹ ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے طلبہ حقوق کی تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو ڈی آئی خاں کے نمائندے احتشام حسن کی جانب سے اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر فراڈ کا سامنے آنا یونیورسٹی کی انتظامی ناکامی ہے۔انکا کہنا تھا کہ اس فراڈ میں ملوث تمام افراد کو فورا قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ اور انھیں سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔