Ali Raza and Qamar Abbas
سوال: اسلام و علیکم
کیسی ہیں آپ ؟
جواب: میں بالکل ٹھیک ٹھاک۔
سوال: کرونا کے بعد لاک ڈاون میں کیا سرگرمیاں چل رہی ہیں آپ کی ؟
جواب: بلاشبہ کرونا وائرس نے لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا ہے لیکن ایک سوشل ورکر کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ لوگوں کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ میں بھی ایک سوشل ورکر ہوں اس لیے میرے لیے بھی عام لوگوں کی طرح گھر میں بند ہونا ممکن نہیں اس لیے میں تو روٹین سے بھی زیادہ کام کر رہی ہوں۔
سوال: آپ کیا اور کہاں کام کرتی ہیں ذرا تفصیل سے بتائیے
جواب: میں ٹرانسجینڈرز کے لیے کام کرنے والی این جی او ساتھی میں کام کرتی ہوں۔ ہم تمام پسے ہوئے طبقات کیلیے ہی کام کرتے ہیں لیکن ہمارا زیادہ تر کام پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے ٹرانسجینڈرز کے لیے ہوتا ہے
سوال: آپ بڑی اچھی جگہ پر کام کر رہی ہیں آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟
جواب: جی میں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے اور کچھ کورس بھی کیے ہیں اور کام تو میں میٹرک میں ہی کرنے لگی تھی میں مختلف اداروں کے ساتھ مل کر ٹرانسجینڈرز کے لیے کام کرتی تھی تب مجھے ٹرانسجینڈرز کے مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ میں پڑھ رہی تھی اور میرے ساتھ کام کرنے والے بہت سے ٹرانسجینڈر نہیں پڑھ رہے تھے۔
سوال: ان کے سکول نہ جانے کی کیا وجہ تھی؟
جواب: ٹرانسجینڈرز کے تعلیم حاصل نہ کرنے اور ادھوری چھوڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تو والدین کی جانب سے ٹرانسجینڈرز کی جانب منفی رویہ ہے۔ والدین ٹرانسجینڈرز کے والدین ہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ معاشرے کو ان کی جنس کے بارے میں پتہ چلے اس لیے والدین کی اکثریت یا تو انھیں گھروں میں قید کر دیتی ہے یا گھروں سے نکال دیتی ہے اس لیے سب سے پہلے تو خاندان کا آپ کو قبول کرنا ضروری ہے۔
البتہ میں ان چند لوگوں میں شامل تھی جن کے والدین انھیں اوون کرتے ہیں
دوسرا مسلئہ سکول میں پرنسپل آفس میں پیش آتا ہے اگر پرنسپل کو پتہ چل جائے کہ بچہ ٹرانسجینڈر ہے تو زیادہ تر پرنسپل ان کو داخلہ ہی نہیں دیتے کہ اس سے سکول کا ماحول خراب ہو گا۔
صرف چند سمجھدار یا رحم دل پرنسپل ہی ہوتے ہیں جو ہمیں بھی انسان سمجھ کر داخلہ دے دیتے ہیں
سوال: وہ لوگ جو خوش قسمتی سے داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کو کلاس کے اندر کس طرح کے رویے کا سامنا ہوتا ہے؟
جواب: سب سے زیادہ اگر ہمیں کہیں سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مرد کلاس فیلوز سے کرنا پڑتا ہے لڑکیاں سپورٹ کرتی ہیں لیکن لڑکے بہت تنگ کرتے ہیں زبانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی
سوال: طلبہ کا رویہ تو بتایا اس حوالے سے اساتذہ کا رویہ کیسا ہوتا ہے اور کیا طلبہ کی طرح مرد اور عورت اساتذہ کے رویے میں بھی فرق ہوتا ہے ؟
جواب: زیادہ تر اساتذہ کا رویہ بھی ہمارے ساتھ منفی ہی ہوتا ہے
اور مرد اور عورت اساتذہ کے رویے میں فرق یہ ہے کہ مرد اساتذہ زبانی اور جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہوتے ہیں اور خواتین زبانی۔
آپ حیران ہونگے کہ مرد اساتذہ اتنا لڑکیوں کو بھی ہراساں نہیں کرتے جتنا ہمیں کیوں کہ ہمیں تو وہ لاوارث اور کچھ ایسا سمجھ رہے ہوتے ہیں جس کی معاشرے میں کوئی حثیت نہیں ہے ہمیں اکیلے کبھی دفتر میں بلاتے ہیں اور کبھی باہر ملنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر ان کی بات نہ مانیں تو انتظامیہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کلاس کا ماحول خراب کر رہے ہیں ان کو
نکالیں
اور خواتین اساتذہ ہمارا مذاق اڑا رہی ہوتی ہیں اور لڑکیوں کو ہم سے دور رہنے کی تلقین کر رہی ہوتی ہیں جو کہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ رویہ ہے
اور مدرسوں کے اندر تو اس سے بھی شدید رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں تو روزانہ کی بنیاد پر ٹرانجینڈرز کے ریپ ہوتے ہیں قاری کی جانب سے بھی اور ساتھی طلبہ کی جانب سے بھی لیکن اگر ہم شکایت کریں تو الٹا ہمیں ہی ذمہ دار قرار دیا جاتا اور کہا جاتا ہے یہ تو خود ہی جنسی عمل میں شامل ہوتے ہیں اور پھر ہمیں مدرسوں سے نکال دیا جاتا ہے۔
سوال: آپ ٹرانسجینڈرز کے مسائل کے حل کے لیے تعلیمی نظام میں کون سے تبدیلیاں تجویز کریں گی
کیا ٹرانسجینڈرز کی تعلیم کا علیحدہ کر دینا چاہیے
جواب: بالکل بھی نہیں۔ ہم پہلے ہی بہت الگ ہیں اور اس لیے ہی ہمیں دوسروں سے عجیب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے میں سمجھتی ہوں ہمیں تیسری جنس کے طور پر سیاسی اور سماجی طور پر تسلیم کیا جائے کیونکہ ہمیں رہنا تو معاشرے میں سب کے ساتھ ہی ہے نا
اور اس شناخت کو تسلیم کروانے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے
سوال: تعلیم کے بعد کا کیا حال ہے ؟ اب تو حکومت نے ٹرانسجینڈرز کے لیے نوکریوں میں کوٹہ بھی مختص کر دیا ہے آپ کیا سمجھتی ہیں اس سے کوئی بہتری آئی ہے ٹرانسجینڈرز کمیونٹی کو روزگار ملنے کے حوالے سے؟
جواب: کوئی خاص بہتری نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہے کہ مختص کردہ سیٹیں ہماری اس تعداد کے مطابق ہیں جو کہ نادرہ کے پاس رجسٹرڈ ہے اور وہ کل تعداد کا 10 فیصد بھی نہیں کیونکہ رجسٹر ہونے کے عمل میں بہت مسائل ہیں آپ حیران ہونگے کہ میں خود پڑھی لکھی ہوں اور سماجی رہنما سمجھی جاتی ہوں لیکن میں بھی ابھی تک اپنے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا نہیں لکھوا سکی اس کی وجہ یہ ہے کہ 2018 میں حکومت نے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا لکھنے کہ اجازت دی ہے تو جب میں نے نادرہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے اسے تبدیل کروانا ہے تو آپ اپنے سارے تعلیمی اور دوسرے سرٹیفکیٹ پر جنس تبدیل کروائیں جس نظام میں برتھ سرٹیفیکیٹ لینے میں مہینوں لگ جاتے ہیں وہاں سارے کاغذات پر جنس تبدیل کروانا نا ممکن ہے۔ اس لیے میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس عمل کو آسان بنا کر تمام خواجہ سراؤں کو رجسٹر کیا جائے اور پھر ان کی اصل تعداد کے مطابق نوکریوں کا کوٹہ مختص کیا جائے۔
سوال: اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ہمیں بہت سے خواجہ سرا نظر آتے ہیں تو کیا اس کو مثبت تبدیلی سمجھتی ہیں؟
جواب: جی یہ ایک مثبت تبدیلی ہے اگر یہ شیطانی غرض سے نہ ہو تو
اگر ہم پرائیویٹ سیکٹر کی بات کریں تو آپ حیران ہونگے کہ زیادہ تر خواجہ سراوں کو نوکری کے چند دن بعد ہی نکال دیا جاتا ہے اس کیے نہیں کہ وہ کام سہی نہیں کرتے بلکہ اس لیے کیونکہ اس کمپنی نے اپنی مشہوری کے لیے فوٹو سیشن کروانا ہوتا ہے اور جب ان کا کام ہو جاتا ہے تو وہ ہمیں نکال دیتے ہیں۔
اور سب سے زیادہ یہ عمل میڈیا کی جانب سے کیا جاتا ہے
سوال: ہمیں اکثر خواجہ سراؤں پر تشدد کے افسوس ناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں آپ اس کی کیا وجہ سمجھتی ہیں؟
جواب: صرف تشدد نہیں بلکہ آئے دن خواجہ سراؤں کے قتل ہو رہے ہیں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی تو کسی کی جنسی خواہش پوری نہ کرنا ہے۔ انکار پر با اثر لوگ (درحقیقت ہمارے مقابلہ میں تو ہر کوئی ہی بااثر ہوتا ہے) ہمیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور کچھ لوگ قتل ہی کر دیتے ہیں
دوسری وجہ جو اس سے بھی بڑی ہے وہ مذہبی طبقہ کا ہمیں انسان نہ سمجھنا ہے پتھر کے دور میں بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ یہ رویہ نہیں رکھا گیا ہو گا۔ آج سرعام علما ہمارے قتل کے فتوی جاری کر رہے ہیں پورے پاکستان میں یہ ہو رہا ہے لیکن خیبر پختونخواہ میں تو روزانہ کی بنیاد پر نام نہاد علما کے فتوی کے بعد ہجوم سڑکوں پر سرعام خواجہ سراؤں کو تشدد کر کے قتل کرتے ہیں اور ان کی وڈیوز بھی سامنے آتی رہتی ہیں
اور سارے مذہبی طبقہ کی جانب سے ہی ہمیں منفی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے چلو یہ تو کم پڑھے لکھے مولوی ہیں لیکن اعلی حکومتی سطح پر بھی ہمارے ساتھ منفی رویہ روا رکھا جاتا ہے ہم کوئی مذہبی عہدہ لینا تو دور کی بات ہے ہمیں حج کرنے کی بھی اجازت نہیں
سوال: جیسا کہ آپ نے کہا روزانہ کی بنیاد پر خواجہ سراؤں کے قتل کی وڈیوز سامنے آرہی ہیں تو اس پر پولیس کا کیا ردعمل ہوتا ہے؟
جواب: پولیس کے رویہ کا ہر کسی کو علم ہے یہاں نامور سے نامور لوگ پولیس سے انصاف نہیں لے سکے تو ہم کیا چیز ہیں
اگر پولیس کے پاس شکایت لے کر جائیں تو وہاں ریپ یا تشدد کا سامنا کر کے واپس آ جاتے ہیں
سوال: آپ نے کہا کہ پولیس آپ سے بہت برا سلوک کرتی ہے لیکن کہا تو یہ جاتا ہے کہ خواجہ سراؤں نے پولیس کے ساتھ مل کر گینگ بنائے ہوئے ہیں جو بہت سے جرائم کرتے ہیں ؟
جواب: آپ کی بات درست ہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے اس طرح کے واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ پولیس کچھ خواجہ سراؤں کو مجبور کرتی ہے کہ آپ امیر لوگوں کہ ساتھ تعلقات بناو اور جب وہ ملاقات کر رہے ہوتے ہیں تو پولیس اوپر سے چھاپا مار کر پیسے بٹورتی ہے لیکن پولیس کا یہ طریقہ واردات صرف خواجہ سراؤں تک محدود نہیں بلکہ اس کام میں زیادہ تر عورتوں کو استعمال کیا جاتا ہے
سوال: بہت شکریہ زنایا انٹرویو کے لیے آخر میں اگر آپ لوگوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں تو دے دیں
جواب: میں سٹوڈنٹس ہیرلڈ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں ہمارے مسائل کی جانب توجہ کی اور میرا انٹرویو کیا
باقی میں لوگوں سے صرف یہ گزارش کروں گی کہ جب آپ مرد اور عورت کی حقوق کی بات کرتے ہیں تو مرد، عورت اور خواجہ سرا کا لفظ استعمال کیا کریں
کیونکہ سماجی طور پر یہ ہماری شناخت کو تسلیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہو گا