عمار یاسر
میری ایک نظم…..
کہاں گئے میرے خواب و خیال کے موسم
وہ جن کی خاطر میری روح و جسم چاک ہوئے
ہے یادگار تو باقی مگر اے میرے قائد
تیرے سخن تیرے افکار زیر خاک ہوئے
فسانہ ہو گئے سب خواب آزادی جمہور
نگارشات امن و اماں دریدہ ہوئے
یوں چھا گیا ہے چہار سو ستم کا فسوں
وفا شعار تیرے سب ہی سر بریدہ ہوئے
یہ میں کہاں ہوں جہاں تیرگی کی شدت سے
سورج تو نکلتا ہے مگر دن نہیں ہوتا
یہ بے حسی ہے کہ لب بستگی کہ لوگ یہاں
ستم تو سہتے ہیں مگر کوئی نہیں روتا
یہ بام و در کی اداسی یہ چار سو کا سکوت
میرے شکستہ چمن کی دلیل آج بھی ہے
میں بے وجہ تو یوں ماتم کناں نہیں رہتا
کہ حق کی راہ میں حائل فصیل آج بھی ہے….
عمار یاسر