رپورٹ: علی رضا
ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں بلوچستان کے علاقہ تربت میں طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف ملک بھر کی طلبہ تنظیموں نے 22 اگست کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتہ 13 اگست کو سیکیورٹی کی ایک گاڑی کے سامنے دھماکہ کے بعد ایف سی اہلکاروں نے شک کی بنیاد پر حیات بلوچ کو قتل کر دیا تھا۔ لیکن تحقیق پر پتہ چلا کہ دور دور تک حیات کا جرم سے تعلق نہیں تھا۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس سانحہ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب طلبہ نے ایک ہی دن متحد ہو کر 22 اگست کو ایک ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
یہ احتجاج سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن اور بلوچ سولیڈیرٹی کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے کنوینر مزمل خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ حیات ایک ہونہار طالب علم تھا جو ڈگری کے ساتھ سی ایس ایس کی تیاری بھی کر رہا تھا اور ابھی وہ چھٹیوں کی وجہ سے گھر آیا ہوا تھا اور باغیچے میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہا تھا اس کا دور دور تک جرم سے تعلق نہیں تھا۔ ہم بے گناہ حیات کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے یہ احتجاج کر رہے ہیں۔
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنما محسن ابدالی نے سٹوڈنٹس ہیرلڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بات مذمت سے آگے نکل چکی ہے اس لیے ہم 22 اگست کو سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ حیات بلوچ کے قتل کو فرد کے تناظر سے نکل کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ قتل تو ایک مثال ہے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تشدد کے یہ واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ہمیں اس رویے کی بیخ کنی کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے اختیارات کو محدود کیا جائے۔ جس کے لیے پورے معاشرے کے اتحاد کی ضرورت ہے اس لیے میں زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو گزارش کرتا ہوں کہ اس احتجاج میں ضرور شریک ہوں۔