گزشتہ روز ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے شاہی قلعہ میں موجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کا بازو توڑ دیا۔ ہربنس پورہ کے رہائشی ایک مذہبی جماعت کے رکن اس نوجوان سے جب وجہ پوچھی گئی تو اسنے بتایا کہ یہ کاروائی خالصا ثواب لوٹنے کی غرض سے کی گئی ہے۔ طفلان گلی کوچہ کی جانب سے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ بلکہ غیر مسلم عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا، غیر مسلموں کی تضحیک، ان پر تشدد، جبری مذہب تبدیلی اور ان کا قتل معمول بن چکا ہے۔
آئین پاکستان نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی تمام شہریوں کو رنگ، نسل، جنس، زبان، مذہب غرضیکہ ہر تفریق سے بالاتر برابر حقوق کی ضمانت دی تھی۔ 70 سال بعد آج بھی شہر اقتدار میں مندر کی اجازت نہ ملنا اس حق کے عملی نفاذ کی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔
دراصل اس حق تلفی کا آغاز قائد اعظم کی اقلیتوں کے بارے میں کی جانے والی تقریر کے نا معلوم طاقت کی جانب سے حذف کیے جانے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اس حق میں اگلی نقب صدر اور وزیراعظم کو مسلمان ہونے سے مشروط کر کے لگائی گئی۔ البتہ ستر کی دہائی تک مذہبی جماعتوں کا اثر و رسوخ کچھ خاص نہ تھا۔ البتہ مذہبی سوچ کے ساتھ بھٹو کے ناکام سمجھوتہ نے اس آئینی تفریق کو مذید گہرا کر دیا۔
تاہم اقلیتوں کے لیے سب سے نازک وقت ضیاالحق کا دور ہے۔ مذہبی جماعتوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے ضیاالحق نے ان مذہبی جماعتوں کی خوشنودی اور افغان جنگ کے لیے مہاجرین تیار کرنے کی غرض سے مذہب کا بھرپور استعمال کیا۔
ضیاالحق نے کئی انتہاپسندانہ مذہبی قوانین متعارف کروائے جن میں قابل ذکر شریعہ قانون ہے۔ جس کو واضح طور پر عورت دشمن اور شریعہ دشمن کہا جا سکتا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح اس نے صرف آئینی تبدیلیوں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بڑے منظم طریقہ سے عملی طور پر لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہوا۔ ان میں سب سے زیادہ ذرائع ابلاغ اور نصاب کا استعمال کیا گیا۔ ایک طرف تو بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب جیسے مصنفین کہانیاں، ناولوں اور ڈراموں کے ذریعے ایک خاص طرح کی ذہن سازی کر رہے تھے تو دوسری طرف سکول، کالج اور جامعات میں حکومت کی جانب سے مذہبی تفریق پر مشتمل نصاب طلبہ کو نفرت کا درس دے رہا تھا۔
ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے جس شدت کے ساتھ یہ زہر لوگوں کے دماغوں میں بھرا گیا ہے اسی شدت سے بڑے اقدامات لے کر اس غلطی کی درستگی کی جائے لیکن کسی جمہوری حکومت نے بھی ایسا نہ کیا یا کرنے نہ دیا گیا۔
اس وقت مذہبی آزادی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ آج 80 سے زائد ملزم توہین مذہب کے نام پر جیلوں میں بند ہیں، جن کا کیس لینے کے لیے کوئی وکیل تیار نہیں۔ کیونکہ ایسے سائلین کے وکلاء کے قتل کے بھی کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ مشال خان کی طرح کئی لوگوں کو ذاتی دشمنی کی بنا پر توہین مذہب کے الظام کے آڑے مارنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
اس شدت میں حالیہ اضافہ “ٹی ایل پی” کے منظرعام پر آنے کے بعد آیا ہے۔ جس کو مبینہ طور پر انھی لوگوں کی حمایت حاصل تھی جن کی حمایت عمران خان کے دھرنے کو حاصل تھی۔
گزشتہ روز امریکہ نے بھی پاکستان کو مذہبی آزادی کو خطرات والے دس ممالک میں شامل کر دیا ہے، ایسے وقت میں جب “ایف اے ٹی ایف” کی تلوار پہلے ہی پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے۔یہ خبر انتہائی اہم اور پریشان کن ہے۔ بلا شبہ امریکہ کے فیصلہ غیر جانب دار نہیں ہوا کرتے لیکن درحقیقت، اقوام عالم انھی فیصلوں پر اپنی رائے بناتے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود نہ صرف اس انتہا پسندی کو کم کرنے میں کسی ٹھوس قدم سے گریزاں ہیں بلکہ وہ خود بھی مسلسل مذہبی سوچ کا پرچار کر رہے ہیں۔ جو کہ اقلیتوں کے لیے سنگین حالات کا سبب بن رہا ہے۔ اگر اس متضاد سوچ کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کو سیاحت کے لیے سازگار اور اقوام عالم میں شاندار مقام کے خواب دیکھ یا دکھا رہے ہیں تو یا تو وہ خود سے اور عوام سے جھوٹ بول رہے ہیں یا عالمی منظرنامہ سے نا بلد ہیں۔
اس وقت اقوام عالم ایک سیکولر نظام کی حامی ہے۔ جس کے مطابق ریاست کو مذہب سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے، تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس نظریے کی مخالفت کرتے ہوئے مذہبی ریاست کی جانب رخ کرتا ہے تو اقوام عالم کی نظر میں اس کی وہ عزت ہوتی ہے جو پاکستان میں اسرائیل کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیکولرازم کی بات کرنے والے کو بے حیا کہا جاتا ہے۔ اگر سیکولرازم کا حامی ” بے حیا ” ہوتا ہے تو پھر تو اس دنیا کے سب سے بڑے “بے حیا” انڈیا کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان قرار پائیں گے۔
گزشتہ سال کرتار پور راہداری کا افتتاح ہوا جو کہ بہت خوش آئند ہے۔ لیکن یہ منصوبہ بہت سے سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ اس منصوبہ پر اربوں روپیہ لاگت آئی، دن رات اخبارات پر اس کی تشہیر کی گئی لیکن کسی انتہا پسند مذہبی جتھے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس پر سوال اٹھا سکے۔ کیونکہ اس میں حکومت اور ریاست کا فائدہ تھا اس لیے اس منصوبہ کو ان کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ دوسری جانب اسلام آباد میں ہندو برادری اپنے پیسوں سے چھوٹا سا مندر بنانے لگتی ہے۔ تو نا جانے کہاں سے سوشل میڈیا اور اسلام آباد کی سڑکوں پر مرنے مارنے کی باتیں کرنے والے نمودار ہو جاتے ہیں اور پھر حکومت کو اس مندر کی تعمیر روکنے کے احکامات جاری کرنے پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے یہ مذہبی گروہ بہت حد تک حکومت و ریاست کے زیر اثر ہیں۔ حکومت و ریاست ان کو کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ جب چاہیں ان کو لگام ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے ان حلقوں کو چاہیے کہ ملک و عوام کے وقار کی بحالی میں قدم اٹھاتے ہوئے ان جتھوں سے آزادی دلائیں۔ جس کے لیے سب سے پہلے قانون میں موجود وہ سقم دور کیے جائیں جو مذہب کی بنیاد پر تفریق کی بات کرتے ہیں اور تمام انسانوں کی برابری کا درس دینے والا ایک نصاب تعلیم عمل میں لایا جائے۔ تاکہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل عمل میں آ سکے۔