استعماریت (کلونیالیزم) اور سامرایت (امپیریالیزم) میں یہ فرق ہے کہ سامراجیت ایک سوچ ہے جس کے تحت ایک قوم خود کو دوسری قوم سے افضل و برتر سمجھتی ہے، اور استعماریت اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا ایک طریقہ ہے۔ استعماریت کے مظالم کے تحت انڈیا میں دس ملین اور پیرو میں تین ملین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد از استعماریت (پوست کلونیالیزم) سوچ میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پوست کلونیالیزم کیفیات کا آغاز استعماری محکومی کے بعد ہوتا ہے یا اس کا حلقہ ادب و مطالعہ استعماریت کے آغاز سے ہوتا ہے۔ بعد از استعماریت کا مطالعہ ڈسکورس کے تجزیے پر مپنی ہے، یعنی یہ فکر استعماریت کی پیدہ کردہ ادب، دستاویزات و ردادھا کو انکے تشکیل کردہ مقصد کے بر عکس ان تمام تحاریر میں سے مقامی لوگوں کی زندگیوں کی کہانی، ان پر ہوئے مظالم کی داستان اور ان اداروں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جنہوں نے استعماریت کو نہ صرف تشکیل دیا بلکہ اس کی تسلسل میں کرداد ادا کیا۔ ادبی تجزیہ (ڈسکورس انالیسز) کا یہ طریقہ مشل فوکو کی علمی روایت سے ماخوز ہے جنہوں نے اپنی کتاب (آثار علم) اکیولوجی آف نولج میں یوروپی تہذیب کے مختلف پہلوں پر تجزیہ کت لیے استعمال کر کے دیکھایا۔ فوکو نے اپنی کتاب (قوت و علم) پاور اینڈ نولج میں (شاہ بیانیہ) ماسٹر نیرٹو کا تصور پیش کیا جس میں انہوں نے یہ مقدمہ پیش کیا کہ ہر معاشرہ میں ایک شاہ بیانیہ باقی تمام بیانیوں پر قدرت رکھتا ہے مگر اس کی نفی میں بھی بیانیے حاشیوں میں زندہ ہوتے ہیں۔ یہ دو خیالات بعد از استعماری فکر کے بنیادی ستون ہیں: یہ فکر ادبی تجزیہ استعمال کرتے ہوئے استعماریت کے زیرین بسنے والے منفرد بیانیوں ردعمل کو کھوجتی ہے اور استعماری ادب کو اس کی دھار کے خلاف پڑھ کر استعماریت کے کردار پر تجزیہ پیش کرتی ہے۔ بعد از استعماری فکر کے اظہار میں اڈورڈ سعید کا بھی بڑا کردار ہے جنہوں نے اورینٹلیزم کی بنیاد رکھی۔
مگر ادبی تجزیہ اپنی حدود کا حامل بھی ہے، جن میں سے اولین تین ادارہ جاتی توثیق، یعنی یہ معلوم نہ ہونا کہ کیا یہ دستاویزات دس اصل کسی استعماری ادارے کے تھے اور اکثر استعماری ممالک کے اداروں کی دستاویزات تک رسائی سے انکار، دوسرا ٹیبو یعنی کسی شہ پر گفتگو و تجزیہ ممنوعہ ہونا، اور آخری پاگلپن یعنی کوئی ایسی شہ جسے معاشرے اور ریاست کی جانب سے غیرالمعمول قرار دے دیا گیا ہو اور اس پر ریاست اور اس کے اداروں کا مکمل اختیار ہو۔
ہندوستان میں استعماریت کی تاریخ میں ایک اہم کرداد ٹھومس ب۔ مایکولے نت ادا کیا تھا، جس کی حکمت عملی کے نتیجے میں ہندوستان سے فارسی-سنسکرت علمی تحذیب کا خاتمہ ہوا اور ان زبانوں کے برعکس اردو اور انگریزی میں تعلیم کے لیے یوروی تعلیمی اداروں کے طرز پر متوازی ادارے قایم کیے گیے۔ مایکولے کو نہ تو فارسی عربی آتی تھی اور نہ ہی سنسکرت مفر اس کے خیال میں ان تہذیبوں کے تمام ادب سے یورپی ادب کا ایک طاق بہتر ہے۔ یہ رویہ یوروپ میں عام تھا اور تمام سیاسی خیالات و نظریات سے بلا تعلق تمام لوگوں میں پایا جاتا تھا بھلے وہ کتنے ہی ترقی پسند کیوں نہ ہوں، مارکس نے بھی برطانوی استعماریت کو ہندوستان کت لیے ایک چھپی نعمت کہا تھا اور یہ اظہار کیا تھا کہ ہندوستان جس شہ کو کھو بیٹھا ہے وہ اس کی قدیم تہذیب، روایت اور ثقافت ہے اور یہ سب وحشی اور بربریت زدہ تھا۔
ادب میں بود از اتعماری فکر کی تاریخ قدرہ پختہ ہے، اس فکر کا سب سے پہلا اظہار ادبی ہی تھا۔ سامراج سے آزادی کے بعد مقامی ادیبوں نے سامراجی و استعماری ادب کی نفی میں ککھنا شروع کیا۔ اس کی سب سے پہلی مثال شاید چنوا اچبے کی کتاب (سب بکھر جاتا ہے) تھنگز فال اپارٹ میں ملتی ہے جو جوسف کونارڈ کی کتاب (تاریکی کے قلب میں) ان دا ہارٹ آف ڈارکنس کی نفی میں لکھی گئی تھی۔ ادب کی یہ بعد از استعماری جہد مقامی لوگاں کی زندی ان کے تجربے اور زایے سے دیکھانے کا کام سر انجام دیتی ہے اور سامراج کی قایم کردہ دینا میں مقامی لوگوں کو خود اپنی نمائیندگی کرنے کی کوشش کری ہے۔ بعد از استعماری ادب اکثر استعماریت کے دور پر مبنی ہوتا ہت یا اس سے جڑے واقعات پر تبصرہ کرتا ہے۔ اس کا تعلق سگمنڈ فاریڈ کے (اصلی زخم) اوریجنل وونڈ سے ہے جس کے تحت وہ یہ مقدمہ پیش کرتا ہے کہ ذات کو اذیت دینے والے نفسیاتی زخم کو جب تک دوبارہ سمجھا نہیں جائے تب تک ذاب کی اذیت کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تہذیب اور معاشرہ کو تباہ کرنے والے زخم پر جب تک تبصرہ و تجزیہ نہیں کیا جائے گا اس کے اثرات کو نہ سمجھا جا سجتا ہے اور نہ ختم کیا کا سکتا ہے۔
استعماریت تشدد پر مبنی ہے، اور یہ تشدد زبان اور وسائل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، نہونی وا تھینگو کو اپنی مقامی زبان میں تمثیل لکھنے کے جرم میں سزا ہوئی، اور کوامے نخرومہ نے جب نوسامراجی (نیو کلونیئل) قوتوں کی خواہشات کت برعکس اپنے ملک کت تمام وسائل دولتِ عامہ مقرر کیے تو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ استعماری تشدد آج بھی نواستعماری و نوسامراجی نظام کی شکل میں زندہ ہے۔
استعماریت کی اور تخلیق (مخلوطیت) ہائیبریڈیٹی ہے یعنی مقامی اشرافیہ طبقے کو ان کی اپنی تہذیب کی معنویت و ربط سے بالکل خالی کر کہ ان کا تخیل واہمہ اور تصورات کو مکمل طور پر یوروپی بنا دینا جس سے استعماریت کے دوران ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جا سکے جو ان تمام لوگوں کی محکومی میں مدد کرے اور استعماریت کے بعد یہ طاقتور طبقہ ترک استعماریت کو روکتا ہے اور سامراجی و نواستعماری عزائم کو برقرار راکھتا ہے۔