بدقسمتی سے پاکستان کو معرض وجود میں لانے کی کوشش کرنے والی مسلم لیگ کے پاس انگریز کی بنائی طاقت کی تقسیم کو توڑنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ اس لیے طاقت انھیں وڈیروں، بیورو کریسی اور جرنیلوں تک محدود رہی جن کو سامراج کے سہولت کار کے طور پر ملی تھی اور آج تک انھیں لوگوں کی اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہے۔ دائرے میں گھومتی اس طاقت کے ڈھانچہ کو توڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئیں۔ موجودہ تناظر میں اپنی معاشی و سماجی حالت بہتر بنانے کا واحد حل تعلیم ہے۔ تعلیم ہی ہے جسے حاصل کر کے پچھڑے ہوئے طبقات میں سے بھی کوئی شخص اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
لیکن کیونکہ تعلیم انتہائی مہنگی ہے اس لیے تعلیم بھی یہی لوگ حاصل کر پاتے ہیں۔ جن کے پاس پہلے سے معاشی اور سماجی طاقت موجود ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ میں غریب اور امیر کا فرق شدید تر ہو گیا ہے۔ جس کی پہلی وجہ تو سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کا لازمی نتیجہ امیر اور غریب میں شدید تفریق ہے۔ جبکہ دوسری وجہ کرونا وائرس ہے۔ کرونا وائرس کے باعث کاروبار بند رہے اور ملازمت پیشہ افراد بھی یا تو بیروزگار ہو گئے یا ان کی تنخواہیں انتہائی کم کر دی گئیں۔ اس وجہ درمیانہ طبقہ غریب اور غریب غریب تر ہو گیا۔ ایسی صورت میں اکثریت کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن ہو گیا ہے۔
ایسے وقت میں جب حکومت کو تعلیم کو بچانے کے لیے انتہائی اقدامات کی ضرورت تھی، حکومت نے تعلیم کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
کرونا کے دوران مختلف صنعتوں کو اربوں روپے کے پیکج دیے گئے لیکن عجیب بات ہے کہ نظام تعلیم کو چلایا تو انڈسٹری کی طرح جا رہا ہے لیکن حکومت نے ان کے لیے کوئی پیکج نہیں دیا۔
یہاں تک کہ تعلیمی ادارے طلبہ سے بجلی، پانی و دیگر چارجزکی مد میں بھی پوری فیس وصول کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ طلبہ یہ سہولیات استعمال نہیں کر رہے تھے۔ لیکن حکومت نے یہ اضافی فیسیں نہ لینے کے لیے جامعات کو کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ اور جہاں طلبہ نے احتجاج کر کے جامعات کو فیس کم کرنے کا نوٹیفیکشن نکالنے پر مجبور بھی کر دیا وہاں بھی حکومت کی عدم دلچسپی اور طلبہ یونین کے نا ہونے کے باعث اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
یہی نہیں بلکہ نا صرف حکومت نے فیسیں کم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ جامعات کو فیسیں بڑھانے سے بھی نہیں روک رہی۔ گزشتہ ہفتہ سندھ یونیورسٹی نے اپنی فیس 50 فیصد تک بڑھا دی ہے، یونیورسٹی آف پشاور میں فیسوں میں اضافہ کے خلاف طلبہ احتجاج کر رہے ہیں یہی حال دیگر بیشتر جامعات کا ہے۔
ایک اہم مسلئہ جو طلبہ کو کرونا کے دورانیہ میں درپیش رہا وہ معیاری انٹرنیٹ اور کلاسیں لینے کے لیے اچھے موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی عدم دستیابی تھی۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے ابتدائی بیان کے مطابق ملک کے 50 فیصد سے زائد علاقوں میں یا تو انٹرنیٹ ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو وہاں کی کوالٹی ایسی نہیں تھی کہ کلاسیں لی جا سکیں۔ جبکہ جہاں انٹرنیٹ تھا بھی وہاں بھی غریب طلبہ اچھے موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی عدم دستیابی کے باعث کلاسیں نہیں لے پا رہے تھے۔ حکومت کا فرض تھا کہ ایسے لوگوں کے لیے ان آلہ جات کا بندوبست کرتی۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی بلکہ ابھی چند سالوں پچھلی حکومت طلبہ ہو لیپ ٹاپ فراہم کر رہی تھی۔ جس سکیم کو اس حکومت نے ختم کر دیا۔
آج بھی حالات یہی ہیں جو اوپر بیان ہو چکے ہیں اور شاید لمبے عرصہ تک یہ معاشی بحران برقرار رہے۔ ایسے وقت میں حکومت ہی ہے جو تعلیمی نظام کو سہارا دے سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک بڑے تعلیمی پیکج کا اعلان کیا جائے جس میں تعلیم نظام میں پیدا ہونے والے مسائل کو ختم کیا جا سکے اور پچھڑے ہوئے طبقات کے طلبہ کو تعلیم سے محروم ہونے سے بچایا جا سکے۔