(احمد حسین)
سابقہ فاٹا کو مسائل کا گڑھ کہا جا سکتا ہیں. یہاں زندگی اب بھی انیسویں صدی کے وسطی دور میں سانسیں لے رہی ہے. انفرادی سطع کی کوششوں کے بعد یہاں کے عوام نے اپنی حالت زار بدلنے کی بھر پور کوشش کی اور چند کوششیش کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئیں ۔ لیکن اجتماعی طور پر سرکار کی نا اہل اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث یہاں کے لوگ دیگر علاقوں سے بہت پیچھے ہیں.
پچاس لاکھ سے زائد آبادی کے اس علاقے میں نہ کوئی یونیورسٹی ہے نہ میڈیکل کالج اور نا ہی کوئی جدید ٹیکنیکل ادارہ۔ گریڈ سی اور ڈی کے چند ہسپتال ہیں جہاں عملے اور سہولیات کا شدید فقدان ہے. ڈاکٹروں کی تھوڑی سے تعداد کو اس لئے بٹھایا گیا ہے تاکہ وہ مریضوں کو پشاور یا دیگر اضلاع منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دے سکیں.
بجلی کی صورتحال یہ ہے کہ پورے دن میں مجموعی طور پر 3 گھنٹوں سے زیادہ بجلی نہیں دی جاتی. سڑکیں چند مخصوص علاقوں میں بنائی گئی ہیں اور جو ہیں وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔
امن مخدوش ہے ایک پالیسی کے تحت عوام کو بندوق اور ہتھیار کے قریب رکھا جاتا ہے تاکہ اگر کبھی مذہب یا فرقے کے نام پر مفت جان نثاران کی ضرورت پڑےتو وہ اس علاقے سے دستیاب ہوں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے.باشعورعوام اور طلبہ کی کوششوں بعد یہاں پاکستان کا آئین بحال تو کر دیا گیا ہے مگر اسکی عملی شکل نظر نہیں آتی. یہاں سرکار اپنے فائدے کے لئے خود ساختہ مشیران کے ذریعے بڑے بڑے فیصلے کرواتی ہے جو اکثر عوام کی مرضی اور منشاء سے مطابقت نہیں رکھتے جبکہ یہاں کے منتخب عوامی نمائندوں کو ریاست پاکستان کی بہت بڑی تعداد غدار اور ملک دشمن عناصر تصور کرتی ہے
یہ فاٹا کے حالات کا مجموعی دکھڑا تھا مگر اس سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مسائل کی الگ داستان ہے۔ یہاں کے طلبہ کے مسائل چند نقات پر مشتمل ہیں۔
یونیورسٹیوں کے نہ ہونے کے باعث طلبہ کی کثیر تعداد کالج کے بعد تعلیم کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس کا سب سے زیادہ اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے جنکی تعداد اسی فیصد سے زائد ہے۔
امن کی مخدوش صورتحال کے باعث طلبہ میں تعلیم کے لئے ذہنی یکسوئی کا مسئلہ بہت اہم نوعیت کا حامل ہے. طلبہ کو روز مرہ کی بنیاد پر دھمکیوں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان طلبہ کا ذہن منتشر رہتا ہے جو ان کے مطالعے پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مقامی سکولوں اور کالجوں کی حالت بھی خستہ ہے جہاں سٹاف کی شدید کمی ہے۔
بجلی کی بدترین صورتحال کی وجہ سے بھی طلبہ کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے. پنکھا، لائٹ اور دیگر اشیاء نا چلنے کے باعث انکی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں بھی پرانے ادوار کی طرح دئیے کی روشنی اور درختوں کی چھاوں کے نیچے ہی پڑھنے کی عادت بنانا ہوگی۔
مقامی امتحانی مراکز میں نقل کلچر کی بھر مار کی وجہ سے قابل طلبہ کا استحصال ہو رہا ہے. امیروں کے بچوں کو نقل کروائی جاتی ہے تا کہ ان کا داخلہ بہتر اور بڑے اداروں میں ہو سکے جبکہ غرباء کے بچوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ نقل باقاعدہ سکول انتظامیہ ، بورڈ انتظامیہ اور امتحانی مراکز کے نگران کے تعاون سے کی جاتی ہے۔
انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کے باعث طلبہ معلومات اور جدید علوم کے حصول سے محروم ہیں. حال ہی میں کرونا وائرس کے باعث کئے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے تمام یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسسز کے اجراء کا فیصلہ کیا ہے فاٹا کے طلبہ انٹر نیٹ کی عدم سہولیات کی وجہ سے آن لائن کلاسسز لینے سے قاصر ہیں۔ اس صورت حال میں انکا قیمتی سمسٹر ضائع ہونے کا خدشہ ہے
آن لائن کلاسز کی صورت پنجاب یونیرسٹی سمیت چند سرکاری اور دیگر پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا بیان قابل مذمت ہے جن کی طرف سے نوٹفیکیشن جاری کردیا گیا ہے کہ جن علاقوں یا طلبہ کے پاس انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ہیں وہ سمسٹر فریز کرلیں جبکہ باقی طلبہ کی آئن لائن کلاسز جاری رہیں گی گویا ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اپنے ساتھی طلبہ سے پیچھے رہ جائیں گے۔
آن لائن کلاسزلینے کیلئے طلبہ اورفاٹا اور بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں تھری جی ، فور جی کی بحالی کے سلسلے میں طلبہ مجبورا ہائیکورٹ سے رجوع کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریاست پاکستان اگر فاٹا اور اس جیسے دیگر پسماندہ علاقوں کو اپنا حصہ تسلیم کرتی ہے تو اسے ان کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کا تدارک کرنا ہوگا ۔ انہیں فوری بنیادیوں پر ان کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ اگ ماضی کی طرح پھر ان کو نظر انداز کیا گی تو ان علاقہ جات سے تعلق رکھنے والوں کی ریاست کے خلاف نفرت مزید بڑھے گی جس کا ازالہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔