14 اگست 1947 کو برصغیر برطانوی سامراج سے “آزاد” ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مہینے برطانوی سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کو زیر بحث لایا جاتا، ان کے جرائم پر ان سے معافی کا مطالبہ کیا جاتا۔ سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ 70 سال کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جاتا اور ناکامیوں کا اعتراف کیا جاتا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سرکاری تاریخ میں استعماریت کا ذکر تک نہیں، سامراج مخالف جدوجہد کا ذکر اس لیے نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ جدوجہد مذہب سے بالا تھی جو قابل قبول نہیں۔ کامیابیاں ہمارے پاس ہیں نہیں اور ناکامیوں کے اعتراف کا ہماری ریاست کو حوصلہ نہیں۔
قومی سلامتی کی ریاست بنائے جانے کے سبب، اگست کے مہینے کو انڈیا کے خلاف بنائے جانے والے نغموں اور تقریروں کے ذریعے ہی منایا جاتا ہے جو کہ ہماری پستی کی ایک مثال ہے۔
اگر ریاستی ڈھانچے، معاشی نظام، علاقائی حقوق اور ثقافت کا سرسری سا بھی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کسی صورت آزاد نہیں۔ برصغیر میں برطانوی راج کے عروج پر بھی عورتوں اور بچوں سمیت ایک لاکھ انگریز تھے جو کہ کروڑوں لوگوں پر حکمرانی کر رہے تھے۔ دراصل ان کی حکمرانی مقامی سہولت کاروں کے ذریعے قائم تھی جن میں کئی مہاراجے، گدی نشین، مقامی افراد پر مشتمل فوج اور بیورو کریسی شامل تھی۔ اپنے ہم وطنوں سے غداری کے بدلے انھیں بڑی بڑی جاگیریں، عہدے اور تنخواہیں دی جاتی تھیں۔
آزادی کے فوری بعد طاقت کے ان رشتوں کو توڑنے کی شدید ضرورت تھی اور اس عمل کا آغاز اپنے ہی ہم وطنوں کے استحصال میں آلہ کار بننے والے ان سہولت کاروں کی طاقت کو ختم کرنے سے ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ انڈیا میں نسبتا زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن پاکستان میں بہت بعد میں کی جانے والی کچھ کوششیں بھی ناکام رہیں۔
اس طرح دولت اور طاقت چند ہاتھوں تک مرکوز رہی۔ یہی لوگ اعلی تعلیم حاصل کرتے، سیاست میں لیتے اور بڑے عہدے حاصل کرتے۔ اس طرح نسل در نسل یہی لوگ امیر ہوتے گئے۔ آج بھی طاقت کا یہ ڈھانچہ اسی طرح قائم ہے۔
دوسری طرف سیکیورٹی اداروں کی ٹریننگ اس طرح سے کی جاتی تھی کہ وہ مقامی لوگوں کو انسان تک نہ سمجھیں۔ بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کر کے ان سے حکم منوائیں۔ ما بعد استعماری ریاست میں بھی ان اداروں میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ رویہ برقرار رہے بلکہ پے درپے مارشل لاوں کی وجہ سے یہ ادارے مزید مضبوط اور بے رحم ہو گئے ہیں۔
اداروں کا اپنے آپ کو عوام کا خادم نہ سمجھنا، کرپشن اور سست روی تو ایک طرف، موجودہ اداروں کا رویہ برٹش انڈیا کی تاریخ میں ظالم ترین جرنیل سمجھے جانے والے جنرل ڈائر سے مشابہ ہے۔ جنرل ڈائر کی ” رینگ کے چلنے والی گلی” کو ظلم کی انتہا سمجھا جاتا ہے جس میں اس کا حکم تھا کہ ہر ہندوستانی رینگ کر گزرے گا۔ آج سابقہ فاٹا سے بے شمار ایسی وڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں سیکیورٹی اہلکاروں کو زبردستی لوگوں سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگواتے اور پرچم کے آگے جھکاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ صوبوں کے درمیان معاشی وسائل کی ناہموار تقسیم تو کئی کتب کی متقاضی ہے۔
ثقافتی سطح پر بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ کیونکہ فن آزاد ماحول کا متقاضی ہے، جو کہ وطن عزیز کو نصیب ہی نہ ہو سکا۔ بلاشبہ بندوق کے سائے میں بھی بہت بڑے بڑے فنکاروں نے جنم لیا لیکن انھیں ایکسیپشن کہتے ہیں۔ دہائیوں کی مسلسل انتہاپسندانہ پالیسیوں نے افراد کی نمو ہی روک رکھی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہر دوسرا فرد ملک سے جان چھڑانے کی کوشش میں ہے اور المیہ دیکھیے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے وطنوں کے اس عمل پر فخر محسوس کرتے ہوئے ان کی آمدن گنتا نہیں تھکتا۔
غرض یہ کہ جس پیمانے پر بھی پرکھیں یہ ریاست استعماری ریاست کی ہی ایک شکل ہے۔