عبدالرحمن
ابا مجھے وہاں نہیں جانا، خدا کی لیے
اُس کی آنکھوں سے نکلنے والے موتی تقریبا معلق ہو چکے تھے۔ سامنے کھڑکی کے پار جامن کے پتے کانپ اُٹھے اور جھڑنے لگے۔ ساون کی آخری بارش میں جامن کے پتے اس کے ارمانوں کے طرح جھڑ رہے تھے۔
اس کی آنکھیں تقریبا بند ہورہی تھیں۔
کمرے میں پنکھے کی غنودگی بھری آواز ہوا کے ساتھ آوارہ پھر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں لرزش تھی نہ ہونٹوں پر جنبش اور نہ ہی بدن میں طاری کپکپاہٹ۔
یکایک کوئل کی کوکو کھڑکی سے کمرے میں سرائت کرگئی۔
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلا۔۔ شاخ سے پتہ گرا۔
اس نے نیم مدہوش کیفیت سے نکل کر آنکھیں کھول دیں۔
اگست 17, 1947 کی سرخ رات اپنے جوبن پر تھی۔ رات ٹھنڈی ہونے کے باوجود خون کی وجہ سے حدت محسوس ہوتی تھی۔
” واھے گروجی کا خالصہ ، واھے گروجی کی فتحے”
وہ سہم جاتی۔ صبح سہری سے پہلے اُنکو اپنی حویلی چھوڑنا تھی۔ انبالہ اور گردونواح سے لوگ قافلوں کی صورت میں نکل رہے تھے۔
اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، کوئی بنیا ہاتھ سے بانے نا پائے۔
قدیم ایمن آباد ( گوجرنوالا) میں مقیم ہندونیاں اپنے جگر گوشوں کو چھاتیوں سے لگائے رام کا ورد جاری کیے ہوئے تھیں۔
اُدھر خطریوں کی کرپانیں کلیجے چیر رہی تھیں۔ ادھر مُسلے مال غنیمت پر ہاتھ صاف کر رہے تھے—بہرحال انسان مررہے تھے۔پرکھوں کے کیے گئے فیصلے میں انا جیت گئی، زمین کے بٹوارے میں انسانیت ہار گئی۔
بی آر بی میں اس رات پانی کی بجائے لہو کا بہاو اپنے زوروں پر تھا۔
سب کچھ وطن پر قربان کرنے کے بعد، بیشتر تین دن وہ اپنے خونی دوپٹے کے ساتھ صرف اور صرف خالص آنسو لائی تھی۔
اگست 20 کی دوپہر لاہور سٹیشن سے اُٹھنے والی ٹھنڈے گوشت کی مہیب عفریت مہکاریں اُسے ” آزادی مبارک” بول رہی تھیں۔