رپورٹ: انضمام میراج
آج لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب یونیورسٹی سے جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے طالب علم بیبگر بلوچ کی بازیابی کے حوالے سے سماعت ہوئی، جس میں پولیس کی جانب سے یہ اعتراف کیا گیا کہ بیبگر بلوچ کو چیف سکیورٹی آفیسر پنجاب یونیورسٹی کرنل عبید کی معاونت سے سی ٹی ڈی کراچی نے اٹھایا۔
اس پر مدعی کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ اسد جمال، ایڈووکیٹ حیدر علی بٹ اور دیگر وکلا کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ سی ٹی ڈی کراچی کو اس کارروائی سے پہلے صوبے کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ کرنا، مقامی پولیس اسٹیشن میں اپنی کارروائی کو درج کروانا اور متعلقہ عدالت سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے۔ تو معزز جج نے جب پولیس سے اس بابت پوچھا تو انکا کہنا تھا کہ ایسا کوئی پروسیجر فالو نہیں کیا گیا جس پر عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا اور سی سی پی او اور ایس ایس پی کو اگلی سماعت پر بذات خود عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد، بیبگر بلوچ کو 27 اپریل کے دن پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اٹھایا گیا تھا۔ جس کو لے کر بلوچ طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ جبکہ آج بھی بلوچ طالب علم اس مسئلے کو لے کر پنجاب یونیورسٹی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر قیصر جاوید کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے تعلیمی اداروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیاں اور پروفائلنگ بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اس معاملے میں پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر کرنل عبید کا کردار انتہائی گھناؤنا اور طلبہ دشمن ثابت ہوا ہے، جبکہ انکے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ثابت ہونے پر ہم انکی بیدخلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔تاکہ انھیں فورا ہٹا کر زمہ دار شخص کو یہ زمہ داری سونپی جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ہمارے طالب علم ساتھی کو رہا نہیں کیا جاتا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔