(عبیدالرحمان)
اک شور اٹھتا ہے نوجوان خون کے جوش مارنے پر ، اک جذبہ ابھرتا ہے جب برسوں سے بند تالے کو چابی نہ ملنے پر توڑ دیا جاتا ہے ، چابی بنانےوالے ڈر جاتے ہیں کہ اب لوگ ہاتھوں سے تالے توڑ رہے ہیں، چابی کون بنواۓ گا ؟ موجودہ سماجی نظام ایک کینسر کی طرح پورے سماج کو نیست ونابود کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ حکومت بندوقوں کے ساۓ میں کھڑی ہو کر اعلانِ عام کر رہی ہے کہ خبردار ہماری کرتوتوں پر سے پردہ نہ ہٹانا وگرنہ نامعلوم افراد کی لسٹ میں گمنام ہو جاؤ گے یا بیچ چوراہے پر( خدا کے) اسلحہ سے لیس فرشتے تمہیں بےدردی سے قتل کر دیں گے۔
بندوقوں کے زور پر چلی آتی اپنی برسوں پرانی روایت کو دہراتے ہوۓ وہ اعلان کرتے ہیں کہ جو ہمیں گڑھے میں گرنے سے باز رکھے گا ہم اسے زمین میں گاڑدیں گے، جو زمیں سے اٹھ کر آسماں کو چھونے کی خواہش ظاہر کرے گا اسے خلا میں پھونک دیا جاۓ گا۔آپ چھپانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ اس گھٹیا نظام میں کہنے والے، سننے والوں سے خوف زدہ ہیں اور پڑھنے والے لکھنے سے ڈر رہے ہیں۔ انہیں کہا جارہا ہے کہ مت لکھو ورنہ ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے ، مت سنو ورنہ بہرے کر دیے جاؤ گے ، مت پڑھو ورنہ آنکھیں نوچ لی جائیں گی اور اپنے حقوق کیلئے آواز مت آواز اٹھاؤ وگرنہ زبان کھینچ لی جاۓ گی۔ اسلحے کے زور پر قلم کی خوشبو کو پھیلنے سے ہمیشہ سے روکا جاتا ہے۔
لیکن ایسا کب تک ہوتا ؟ آخر نوجوانوں نے قلم اور کتاب کی خوشبو کو سونگھا اور پہچان لیا کہ اسی میں ان کی بقا ہے۔ لکھنے والے لکھنے لگے چاہے ان کے ہاتھوں کے ہڈیاں تک توڑ دی جائیں، سننے والے سننے لگے چاہے ان کے کانوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاۓ، پڑھنے والے پڑھنے لگے چاہے ان کی آنکھوں کو نوچ کر کچل دیا جاۓ اور حقوق مانگنے والوں نے اپنے حقوق چھیننا شروع کر دیے چاہے ان کو اپنی جان ہی کی قربانی دینی پڑی۔ اس جدوجہد میں کتنی ہی قربانیاں دی جا چکی ہیں۔ ناجانے کتنوں کے خون بندقوں کی گولیوں پر سے مٹ بھی چکے ہیں۔ ناجانے کتنےہی جسم اپنی بھینٹ چڑھا کر اپنے لوگوں کے لیے ہمیشہ زندہ رہنے والے نئے نظریے سونپ گئے ہیں۔
مشال خان کی بےدردی سے مسخ کی گئی لاش آج بھی میری آنکھوں کے سامنے تڑپ رہی ہے۔ مشال کا جسم کہ جس پر کوئی ایک جگہ بھی ایسی نہ چھوڑی کہ اس کی ماں آخری بار اپنے بیٹے کو چوم سکتی۔ مشال کا بہتا خون سارے آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے رنگ چڑھا گیا ہے۔ مشال نےلکھنے والوں کی طرح لکھا اور بولنے والوں کی طرح بولا اور ہم پر حاکم بنے بیٹھے بندقوں سے لبریز شیطانوں کو للکارا۔ مشال کی موت بےشمار ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر گئی کہ آخر کب تک بنا سوچے زندگی کاٹو گے ؟ آخر کب تک ظلم کو چپ چاپ سہتے جاؤ گے ؟ کب وہ باتیں سنو گے جو تمہیں گراں گزرتی ہیں ؟ بندوقیں اور خدا کے نمائندہ کی ڈگری ہاتھ میں تھامے مشال کو قتل کرنے والے درندوں نے سوچا کہ یہ روایت چلتی رہے گی اور کبھی نہیں ٹوٹے گی ہم اپنی حاکمیت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیں گے مگر ان درندوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ مشال کی بےجان لاش ناجانے کتنے ہی ذہنوں میں نئی اور زندہ روح پھونک گئی ہے کہ اٹھو ! اب بہت ہوا ! ان درندوں کا خیال تھا کہ مشال کو مار کر وہ اس کے نظریات کا خاتمہ کر دیں گے لیکن یہ بےوقوف کتنے بڑے مغالطے میں رہے۔ سچ تو یہ کہ مشال ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ہے۔ مشال قلم اور کتاب کی طاقت کو ایک نئی روح سے نواز چکا ہے۔ ان اسلحہ سے لبریز درندوں نے ہمیشہ سے ہی قلم اور کتاب کے پھولوں کو روند کر رکھنا چاہا مگر یہ بےوقوف قلم اورکتاب کی خوشبو کو کبھی بھی پھیلنے سے نہیں روک سکے اور نہ ہی کبھی روک سکیں گے۔
دہلی میں ہو رہے ایک مظاہرے میں طلبا نے بندوق والوں کو پھول دکھا کر ہمیشہ کی طرح ان دندوں کو رسوا کیا ہے۔ انہوں نے اپنے قتل ہونے پربھی ڈٹ کر اپنے قاتلوں کا سامنا کیا ہے۔ لاہور میں طلبا کو اپنے حقوق مانگنے پر جیلوں میں راتیں کاٹنی پڑی۔ بندوق کی بجاۓ قلم مانگنے پر غائب کر دیا گیا۔ لیکن ان ظالموں کو اتنی خبر نہیں کہ اب یہ پیچھے ہٹنے والے نہیں ۔ وہ وقت دور نہیں کہ جب بندوق کے زور پر چلنے والی تمام حکومتیں نیست و نابودہو جائیں گی اور امن کے پرچم چار سو لہرائیں گے، کہ جب کتابیں چھپنے کی آواز میں بندوقوں کی گھن گرج گم ہو کر رہ جاۓ گی اور جب قلم کے زور پر بندوقوں کا وجود ہمیشہ ہمیشہ کی لیے اس دھرتی سے مٹا دیا جاۓ گا تاکہ مذید مشال قتل نہ ہو سکیں۔ بندوقوں سے لبریز شیطان ، ہاتھوں میں فقط قلم اور کتاب تھامے ہوۓ نہتے نوجوانوں سے ڈر رہے ہیں اور یہی ڈر ان کی ہار کی پہلی نشانی ہے۔ یہ خوف میں کبھی کسی کو اٹھا لے جاتے ہیں تو کبھی قتل ہی کر ڈالتے ہیں مگر جیسا کہ چے گویرا نے کہا تھا کہ یہ صرف جسموں کو مٹا سکتے ہیں ، فکر اور نظریے کو نہیں۔ ایک مشال مار کر ان کے سامنے آج سینکڑوں مشال اپنا سینا تانے کھڑے ہیں اور یہ درندے ڈر رہے ہیں کیونکہ قلم کی طاقت بندوقوں کے وجود کو نیست و نابود کر رہی ہے !
مشال خان کو لال سلام !