ڈاکٹر محمد عمر حسین
اس ملک کے تعلیمی نظام کی کڑاہی میں ترقی کے خیالی پکوان ڈال کر سایۂ خدائے ذوالجلال گاتے ہوۓ سات دہائیاں بیت گئی ہیں مگر صبح ہے کہ ہونے کا نام نہیں لیتی۔ تو چلیے اس مداری کو پھر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے پہلے اک مشہور زمانہ کہانی دوبارہ یاد کرتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ اک شخص کے پاس اک مرغی تھی جو روز اک سونے کا انڈہ دیتی تھی ۔ وہ شخص روز مرغی کو دانہ ڈالتا اس کا خیال رکھتا اور انڈہ بیچ کے گزارہ کر لیتا۔اس کے لیے مرغی اک مشین تھی جس کی پروڈکٹ انڈہ تھی ۔ اک دن ا س نے سوچا کہ کیوں نہ میں سارے انڈے اک ہی دن حاصل کر لوں ۔ اس سوچ کے ساتھ اس نے مرغی کو مار ڈالا اور اس کی جو پروڈکٹ تھی یعنی انڈہ اس سے بھی ہاتھ د و بیٹھا۔اس کہانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر آپ کو سونے کے انڈے چاہیے تو آپ کو مرغی کو زندہ رکھنا پڑے گا اس کی دیکھ بھال کرنی پڑے گی۔اگر آپ کو کوئی پروڈکٹ چاہیے تو پروڈکٹ بنانے والی مشین کی دیکھ بھال بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اب اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس ملک کے طالب علم طبقے پر نظر دوڑائیے ۔یہ طبقہ وہ مشین ہے جو ملک کی ہر پروڈکٹ کا محور ہے- ہم اپنی پراڈکٹ مشین کو کئی سال پرانا نصاب،آلات سے خالی لیب اور پیسہ کماو تعلیم دے رہے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اس کے متبادل کوئی نیلسن منڈیلا پیدا ہو۔ ہمارے گھروں میں بچے کو سکول جانے کے پہلے دن سے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ تو وہ بنو جو تمھارے والدین تم سے چاہتے ہیں ۔اگر وہ اس مشین کو ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو وہ ڈاکٹر ہی بنے گا اور اگر انجینیر بنانا چاہتےہیں تو کسی اور چیز کو سوچنا گناہ کبیرا ہے۔کیریئر کونسلنگ نام کی چیز سرے سے موجود نہیں ۔اک طالب علم بغیر کسی راہنمائی کے نمبروں کی ریس میں دوڑتا آٹھویں جماعت میں پہنچتا ہے تو گھر والے اک فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کا بچہ آرٹس نہیں بلکہ سائنس پڑے گا۔ اور اس عمر میں جب بچے اپنے شوق کا معلوم نہیں ہوتا تو زبردستی اس سے دیگر تمام آپشنز چھین لئے جاتے ہیں ۔نہم اور دہم کا بیس سالوں سے چلا آ رہا نصاب اس لیے نہیں پڑھا جاتا کہ اس سے کچھ سیکھا جائے بلکہ اس لیے پڑھایا جاتا ہے کہ چونکہ اچھی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے میٹرک کے نمبر شمار ہوں گے اس لیے دوسروں سے زیادہ رٹہ لگایا جائے اور زیادہ اچھی اکیڈمی کو پیسے دیے جائیں۔مہذب دنیا اپنی پراڈکٹ مشینری کو نت نئے علوم سے متعارف کرا کر میریخ تک پہنچ چکی ہیں اور ہم ابھی تک مطالعہ پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کے مصنوعی ترقیاتی ماڈل سے جان نہیں چھڑا پائے۔ اپنے آباو اجداد کے نام کے روائیتی اور قدیم ترانے گا کر چاہتے ہیں کے آسمان سے سائنسدان گریں حالانکہ قدیم علوم سے ایسا کچھ نہیں نکالا جاسکتا۔ بالآخر جو ہم بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں ۔سب مل کر صرف ڈاکٹر اور انجیئنیر بو رہے ہیں تو لیڈر کہاں سے کاٹ لیں گے۔جیسے ہی ھمارے ہاں بچہ جماعت دہم کا امتحان دیتا ہے تو اس کے لیے اک اور فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ میڈیکل کے مضامین پڑے گا یا ریاضی کے۔ جب تک ہمارے ہاں طالب علم تعلیم کے بارہ سال گزار کر اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچے تب تک وہ اک بند گلی میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔سامنے میڈیکل کالج، انجینیرنگ یونیورسٹی یا دیگر اداروں میں داخلے کے لیے سخت مقابلہ اور ذہنی دباو جب بھاری فیسوں کی زد میں آتا ہے تو اکثر طلبا حالات کے سامنے ہمت ہار دیتے ہیں۔اگر نصاب کی بات کی جائے تو اس وقت جب ساری دنیا معاشی جنگ لڑ رہی ہے ، ہم ابھی تک اپنے بچوں کو دنیا سے آشنا کرانے کی بجائے. محمد بن قاسم اور محمود غز نوی پڑھا رہے ہیں۔ یقینا ہمیں نصاب کی تبدیلی، کیریئر کونسلنگ اور یکساں نظام تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ورنہ ہم ایجادات اور خوشحالی کے صفحوں سے غائب ہی رہیں گے۔ ہمارے نظام تعلیم کی حقیقت آشکار کرنے کیلئے میرے ساتھ پیش آیا ایک واقعہ ہی کر سکتا ہے جب کچھ عرصہ قبل مجھے ایک پرائمری سکول جانے کا اتفاق ہوا وہاں ہمیں جائزہ لینا تھا کہ ہمارا نظام تعلیم بچوں کو مستقبل کے بارے میں کیا آگاہی دے رہا ہے۔ وہاں زیر تعلیم بچوں سے میں نے ایک سوال کیا کہ بڑا آدمی کون ہوتا ہے؟ اور جواب ہمارے تعلیمی نظام سے بھی برا تھا۔جو یہ تھا کہ بڑا آدمی وہ ہے جس کے پاس کار ہوتی ہے۔ یہ جواب ایک سوال چھوڑتا ہے
کہ ہمارا نظام تعلیم کس ڈگر پہ چل رہا ہے؟