اس وقت پاکستانی سوچ اور عمل دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک گروہ اس ملک کے وسائل میں 95 فیصد عوام کا حصہ مانگ رہا ہے، طبقہ و جنس کی بنیاد پر رائج ہر قسم کے تعصب کو سرعام چوکوں و چوراہوں میں للکار رہا ہے، دہائیوں سے جاری علاقائی نابرابری اور ناانصافی کو رد کر کے مساوات پر مبنی ایک نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، عقیدے کی قید سے نکل کر دلیل و منطق سے اپنے مسائل کے حل کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکیٹو، پشتون تحفظ موومنٹ، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، یوتھ آف وزیرستان، حقوق خلق پارٹی، عورت مارچ، عوامی ورکرز پارٹی اور کئی دیگر سیاسی و سماجی تحریکوں اور تنظیموں کی صورت جدوجہد مسلسل کر رہے ہیں، جن کی قیادت سنید داوڑ جیسے نوجوان کر رہے ہیں۔
جبکہ دوسرا گروہ مذہب و ریاست سے متعلق گھڑے گئے اپنے خیالی ماضی کے سائے میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور با زور بازو دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ گروہ ٹی ٹی پی، ٹی ایل پی، جماعت اسلامی، جماعت الدعوہ اور ففتھ جینریشن وار فیئر کی کئی چھوٹی بڑی بریگیڈوں پر مشتمل ہے۔
ان دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلا گروہ عوامی ہے، جسے پسے ہوئے لوگوں نے آپس میں گفت شنید کے ذریعے اپنے معاشی و سماجی مسائل کے حل کے لیے ملکر تشکیل دیا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس ریاست پر قابض 5 فیصد فوجی و سول بیوروکریسی، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے پروجیکٹس ہیں، جو وقتا فوقتاً اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اورحقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے لانچ کیے جاتے ہیں۔ جس طرح سے ضیاالحق نے اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہاپسندوں کی فیکٹریاں لگائیں، سنید داوڑ بھی اسی پروجیکٹ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
سنید داوڈ تھا کون؟ ہمارا دوست، کامریڈ سنید داوڑ موجودہ دور کی حسد، جھوٹ، منافقت اور نفرت جیسی لعنتوں سے پاک، لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک ترقی پسند طالب علم رہنما تھا۔ جس نے یونیورسٹی آف لاہور میں پشتون کونسل کی بنیاد رکھی تا کہ پسے ہوئے طبقات اور علاقے سے آئے پشتونوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک مشترکہ پیلٹ فارم مہیا کیا جا سکے۔ بطور چیرمین پشتون کونسل نہ صرف اس نے یونیورسٹی کے اندر پشتونوں کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کیا بلکہ وزیرستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے ہونے والے ظلم کا مقدمہ بھی پنجاب کے عوام کے سامنے رکھا۔ اور صرف پشتون ہی نہیں بلکہ خیبر سے کراچی اور فلسطین سے کشمیر تک جب بھی کسی مظلوم کے لیے آواز اٹھائی جاتی سنید اس میں پیش پیش ہوتا۔ مظلوموں کے اس ساتھی کو گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں اس کے تین ساتھیوں کے ہمراہ دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔
اسے چند خاکی کمپنیوں کے ہاتھوں وزیرستان کے وسائل کی لوٹ مارمنظور نہیں تھی، وہ گڈ طالبان کے ہاتھوں پھر سے یرغمال بھی نہیں ہونا چاہتا تھا جس وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی مخالفت کر رہا تھا۔
عام طور پر طالب علم رہنماوں کی سیاست طلبہ سیاست کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ طلبہ سیاست میں طلبہ چند سالوں میں لیڈر بن چکے ہوتے ہیں اور عملی سیاست میں کارکن کی طرح کام کرنے کو وہ اپنے شایان شان نہیں سمجھتے یا انھیں باہر کی سیاست کی سمجھ نہیں آتی۔ البتہ باقی طالب علموں کی نسبت سنید کا امتیاز یہ تھا کہ وہ وسائل کی کمی کے باوجود طلبہ سیاست کے بعد فوری اپنے علاقے کی سیاست میں سرگرم ہوا، اور مقامی سطح پر ایک کارکن کی طرح کام کا آغاز کیا تھا۔
وہ ریاست مخالف نہیں تھا بلکہ پارلیمانی سیاست کا حامی تھا، جب پارلیمانی سیاست کے انتخاب پر کئی قوم پرستوں کی جانب سے محسن داوڑ پر تنقید کی گئی تو سنید نے اس کے حق میں دی سٹوڈنٹس ہیرلڈ میں آرٹیکل لکھا تھا جو اس کے سیاسی نظریہ کو واضح کرتا ہے۔ البتہ وہ پچھلی کئی دہائیوں سے وزیرستان کے عوام پر جاری جبر کی وجوہات کی نشاندہی کرتا تھا. ریاست اور فرد کے درمیان موجود عمرانی معاہدے کی پاسداری پر زور دیتا تھا۔ اسے چند خاکی کمپنیوں کے ہاتھوں وزیرستان کے وسائل کی لوٹ مارمنظور نہیں تھی، وہ گڈ طالبان کے ہاتھوں پھر سے یرغمال بھی نہیں ہونا چاہتا تھا جس وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی مخالفت کر رہا تھا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ جو بھی سیاسی حکمت عملی اپنائیں، بات سخت لہجے میں کریں یا نرم میں، اگر آپ اشرافیہ کی لوٹ مار کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی۔ ریاست مخالف قرار دینا تو صرف اس قدم کے لیے ایک جواز ہوتا ہے۔
سنید کو طالبان نے قتل کیا ہے، انھیں طالبان نے جن کے ساتھ آج ہماری ریاست مذاکرات کر رہی ہے۔ جن کے بارے میں ریاست کا دعوی ہے کہ یہ اچھے بچے ہیں۔ یہ دعوی نشاندہی کرتا ہے کہ سنید کے قتل میں کون کون ملوث ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو سیکیورٹی اداروں کو سنید اور اس کے ساتھیوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کا یا تو یہی مطلب ہو گا جو میں بیان کر چکا ہوں اور یا پھر اس ملک کے سیکیورٹی ادارے اتنے نااہل ہیں کہ وہ چپے چپے پر چوکیاں بنانے کے باوجود چند قاتلوں کو نہیں پکڑ سکتے۔ اس ملک کے عوام نے مشکل ترین معاشی حالات میں اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ملک کے دفاع کے لیے 2000 ارب (پنشن سمیت) دیئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اگر ہمارے جوانوں نے اسی طرح ہی چوکوں چوراہوں میں قتل ہونا ہے، تو ہمیں یہ معاہدہ کسی صورت منظور نہیں۔
یہ تو نظام انصاف کے فرض کی بات ہے، البتہ ایک مقدمہ عوام کی عدالت میں بھی ہے، ایک مقدمہ تاریخ کی عدالت میں بھی ہے۔ سنید کے قاتلوں کو خبر ہو کہ آج شہر شہر، نگر نگر ” سنید تیرا مشن ادھورا، ہم سب ملکر کریں گے پورا” کے نعروں میں اس کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں، اس کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں، اس کی راہ پر چل کر ترقی پسند سیاسی تحریکوں کو منظم کر کے اس کا سیاسی بدلہ لینے کے عہد ہو رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے ان قاتلوں کا سنید کو ختم کرنے کا مقصد کامیاب نہیں بلکہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اور تاریخ اور عوام کی عدالت میں ان قاتلوں کو اس کا ایسا بدلہ دینا ہو گا جو رہتی دنیا تک ان کی رسوائی کا سبب بنے گا۔