وقت گزرنے کے ساتھ تھوڑا شعور آیا تب ایسے بچوں سے دلی ہمدردی محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان میں سے بیشتر کا یہ مرض پیدائشی نہیں بلکہ انسانی کرتوتوں کا شاخسانہ بھی ہوتا ہے۔
حمل کے دوران بچے میں ”مائیکرو سیفلی” نامی بیماری کے نتیجے میں دماغ کی نشونما رک جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچے کا سر چھوٹا رہ جاتا ہے۔ایسے بچوں کو اکثر غریب خاندان والے مختلف مزاروں اور خانقاہوں پر چھوڑ آتے ہیں۔ ان بچوں کی قسمت میں بھیک مانگ کر گزارا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔سولہویں صدی کے آخر میں گجرات سے ملحقہ ایک گاؤں میں سید کبیر شاہ دولہ نامی بزرگ کی بڑی شہرت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں اور مزار پر منت ماننے سے بانجھ عورتیں بھی حاملہ ہو جایا کرتی تھیں لیکن پہلا بچہ مزار کی امانت ہوتا تھا۔
منت کے صحت مند بچوں کو نذرانے کے طور پر مزار کے حوالے کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نذرانے میں آئے نومولود بچوں کے سروں پر آہنی خول چڑھانے سے ان کے دماغ کی نشونما روک دی جاتی تھی تاکہ وہ ذہنی طور پر اپنے اچھے برےکی تمیز سے بے بہرہ ہو جائیں۔گدا گر ایسے بچوں کی گھات میں رہتے ہیں۔ کیونکہ ایسے بچوں کی بدولت ان کو بھیک خوب مل جاتی ہے۔
ایسے چھوٹے سر والے بچے اور بچیاں اب پہلے کی نسبت بہت کم نظر آتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ شاہ دولہ کے چوہے چوہیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
اب یہ بیماری عمر، نسل اور فرقے سے بالا تر ہو کر سب میں با آسانی سے سرائیت کر رہی ہے۔ بظاہر سر کا حجم چھوٹا نہیں لیکن دماغ کی کئی نسیں اور شریانیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو کر مفلوج ہو چکیں ہیں۔
ایسے شاہ دولہ کے چوہے چوہیوں کی قطار کو جس سمت بھی موڑ دو وہ وہیں مڑ جاتے ہیں۔ شاہ دولہ کے چوہوں کو تیار کرنے کے لیے باقاعدہ ایک حکمت عملی سے کام جاری ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں کو اس مقصد کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے، چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا میڈیا کا، سیاست کا میدان ہو یا کھیل کود کا، ثقافت ہو یا مذہب-
تعلیم کا تو پہلے سے ہی کوئی پرسان حال نہ تھا اب اس پر مزید ضرب اس طرح سے لگائی جا رہی ہے کہ وہ درسگاہیں، جو نئی نسل کے لیے جدید علوم سیکھنے اور تحقیق کا منبع سمجھی جاتی ہیں، ان ہی درسگاہوں میں اب ایسے مہمان اسپیکر بلائے جاتے ہیں، جو توہم پرستی، اور دقیانوسیت پر لیکچر دینے میں کمال فن رکھتے ہیں۔
کیونکہ ہمیں سائنس، ایجادات اور تحقیق سے بھلا کیا سروکار؟ ہم تو زبان اور باتوں میں ید طولی رکھتے ہیں۔ اس لیے نئی نسل کو لفاظی کی تربیت بڑے زوروشور سے دی جاری ہے۔ اور ہر سال ان تعلیمی اداروں سے ایک کثیر تعداد شاہ دولہ کے چوہوں اور چوہیوں کی ہے، جو ڈگریاں لے کر فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔
سیاست میں الزام تراشیاں کرنا معمول کی بات مانی جاتی ہے بشرطیکہ ثبوت کے ساتھ ہو۔
لیکن اب ہمارے یہاں سچے جھوٹے الزامات اتنے یقین اور پختگی سے لگائے اور ان کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ گھر بھر کی نفسیات میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور پھر اسی کو سچ مان لینا ایک عام چلن بن گیس ہے۔ اس کے بعد کوئی دلیل کوئی ثبوت ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب گالم گلوچ کو اب سیاست کا اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گالیاں دینے والے انگریزی میڈیم کے ہیں یا اردو کے، گالی مادری زبان میں دی جا رہی ہے یا انگریزی میں۔ ہر زبان اور کلاس کے لوگ اس حمام میں ننگے ہو گئے ہیں۔
شاہ دولہ کے چوہے بنانے کی ایک بڑی فیکٹری ہمارا میڈیا بھی ہے، جو اس مقصد کو پورا کرنے میں اپنا بھرپور تعاون پیش کر رہا ہے۔ مارننگ شوز سے لے کر رات گئے پیش کیے جانے والے سیاسی جگت بازی کے پروگراموں تک، سب اسی میں مصروف عمل ہیں۔
حالات حاضرہ کے پروگراموں میں دماغ ماؤف کر دینے والی چیخ و پکار سے بھرپور گفتگو ہو یا تفریحی چینلز پر سازشی اور پاکباز عورتوں میں تمیز سکھلانے والے ڈرامے ہوں۔ سب ہی قومی دماغ کو مسلسل تنگ نظر بنانے میں حسب توفیق اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
پاکستان کھیل کے میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ہاکی، اسکوائش اور کرکٹ میں ہمارا طوطی بولتا تھا۔
وقت کے ساتھ اس شعبے کو بھی شاہ دولہ کے چوہوں نے اپنی طرز پر چلانے کی روش اختیار کی اور آج سوائے کرکٹ کے کوئی دوسرا کھیل ہمارے ملک میں پذیرائی نہیں پا سکا اور اپنی موت آپ مر گیا۔ کرکٹ کے میدان میں بھی اب شاہ دولہ کے چوہوں کا راج ہے۔
جس ملک میں مائیک کے ذریعے ہزاروں پیروکاروں پر اجتماعی پھونک مار کر دم کیا جائے، جہاں بکریوں کے تھن پر مذہبی فتوے دینےکی نوبت آ جائے اور معصوم بچیوں کے بے ضرر جسم دیکھ کر شیطانی جذبات غالب آجائیں۔
جہاں لوگ ٹرانس جینڈرز کو اکیسویں صدی میں بھی ایک انسان سمجھنے سے عاری ہوں اور ان کے انسانی حقوق کے بل کو رد کرنےکے لیے طرح طرح کی بیہودہ تاویلیں پیش کر رہے ہوں تو کیا ایسی قوم شاہ دولہ کے چوہوں کی قوم نہیں کہلائی جائے گی۔
یہ شاہ دولہ کے چوہوں کی فوج بڑی منصوبہ بندی سے بنائی گئی ہے اور بتدریج بڑھائی جارہی ہے اور اب ہمیں ہر گلی محلے گاؤں اور شہروں میں ایسے چوہوں کی بہتاب ملتی ہے۔
سر پر چاہے بچپن میں آہنی خول پہنا دیا جائے یا کپڑے کے اسکارف اور برقعے کے علامتی خول سے ڈھانپ دیا جائے اصل مقصد دماغ کی نشونما کو روکنا ہے تاکہ عمر کے ساتھ جسمانی ساخت تو بڑھے لیکن جہاں سے سوالات ابھریں وہ ذہن پنپنے نہ دیا جائے۔ عوام کو اس علامتی خول کا اتنا عادی بنا دیا جائے کہ بنیادی سوالات جنم لینے سے پہلے ہی دماغ میں ضائع ہو کر مر جائیں۔
بھیک مانگتے چھوٹے سر والے شاہ دولہ کے چوہے قابل رحم ضرور ہوتے ہیں لیکن خطرناک نہیں۔ ایسے بچے پیدائشی اس بیماری کاشکار ہوں یا کر دیے گئے ہوں اس کی روک تھام بے حد ضروری ہے۔
لیکن قابل تشویش صورتحال ان شاہ دولہ کے چوہوں کی ہے، جو بظاہر نارمل نظر آتے ہیں لیکن ذرا سے اختلاف رائے، نظریے رکھنےوالوں پر، ان کا وحشیانہ طرز عمل آئے دن معاشرے میں واضح نظر آنے لگا ہے۔
شاید کچھ اقتدار اعلی کے حلقوں کے لیے عوام کی اکثریت کے شاہ دولہ کے چوہے بننے میں ہی مفاد پوشیدہ ہوں گے۔ لیکن یاد رکھنےکی بات یہ ہے کہ چوہے جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو ملک میں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے۔