محمد احمد آزاد
ہمارے ہاں صحافت کے بارے میں تین مختلف رائے کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے بالکل عام لوگ ہیں جو کسی بھی چیز بارے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہتے اور انکی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس طبقے میں زیادہ تر عام لوگ ،کم پڑھے لکھے ،غریب اور متوسط طبقے شامل ہوتے ہیں۔ انہیں سنسنی خیز خبر متاثر کرتی ہے جس کے ذریعے لوگوں میں افراتفری پھیل سکے اور وہ دن بھر اس پر تبصرہ کر سکیں۔ یہ طبقہ زیادہ تر سنسنی پھیلانے والے تجزیہ کاروں کو سنتے ہیں۔ چوںکہ اس قسم کے ناظرین یا قارئین تعداد میں سب سے زیادہ ہیں اس وجہ سے ہر میڈیا کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہاٹ نیوز پیدا کر سکے اور اپنی ریٹنگ بڑھا سکے۔ ان سنسنی خیز خبروں کی بدولت وہ مختلف طریقوں سے عوام کی کسی بھی چیز کے بارے میں رائے بھی قائم کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں کیوںکہ اس سے ان کے بے شمار سیاسی فائدے جڑے ہوتے ہیں۔ عام آدمی زیادہ سوچنے کا توقف نہیں کرتا اور وہ اپنا چورن بیچنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آدمی کا وقت گزر جاتا ہے اسے اور کیا چاہیے مگر درحقیقت اس طرح کی خبروں سے عوام میں دیر پا غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں جو کہ بہت خطرناک ہے۔
دوسرے طبقے کے ناظرین کی بات کی جائے تو ان میں عموماً پڑھے لکھے لوگ شامل ہوتے ہیں جو “مطالعہ پاکستان” پر ایمان کامل رکھتے ہیں. ان لوگوں کی رائے یہ ہے کہ صحافت کو ریاست کے کنٹرول میں ہونا چاہیے اگر ایسا نہیں ہوگا تو ایسی خبریں پھیلائی جائیں گی جو قومی مفاد کے بر عکس ہوکر ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بس میڈیا کو سب اچھا کی رٹ لگائے رہنا چاہیے اس سے عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طبقے میں سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کی بڑی تعداد شامل ہے جو اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے قوم کو اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار میڈیا کے چند نمائندوں اور سیاسی جماعتیں تو پورے چینلز کو خرید لیتی ہیں۔ پھر جو صحافی بھی ان کے ذاتی مفاد کے خلاف بات کرے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ آج کل تو سیاستدانوں اور سرمایہ داروں نے باقاعدہ میڈیا کے لوگوں کو اپنا ٹاوٹ بنا کرخریدا ہوا ہے جو ان کو بے نقاب کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہمہ وقت چاق و چوبند رہتے ہیں۔ جوں ہی کوئی صحافی ان کے آقاؤں پر تنقید کرتا ہے تو وہ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیتے ہیں ان کا ساتھ دینے کے لیے چند صحافی بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں چند ایک صحافی ہی تنقید کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں انہیں قومی مفاد کے مخالف اور غدار کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
تیسرا اور سب سے چھوٹا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سوچنے کی زحمت گوارا کرتا ہے۔ اس میں اکثر پڑھے لکھے لوگ اور ناقدین شامل ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں میڈیا کو مکمل طور پہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس سے معاشرے میں انتشار اور تقسیم کم ہوگی۔ جب ہر مکتب فکر کے لوگوں کے خیالات قوم کے سامنے رکھے جائیں گے تو عوام درست طریقے سے صحیح اور غلط کا تعین کر سکے گی۔ جب تمام لوگوں کی بات عوام تک پپنچائی جائے گی تو ان لوگوں کے تحفظات بھی کم ہو جائیں گے جنھیں ریاست اور اداروں سے ہمیشہ ہی گلا رہتا ہے۔
مزید برآں آزاد میڈیا عام لوگوں کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور عوام میں آگہی اور شعور کو بیدار کر سکتا ہے۔ کسی بھی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس کے ناقدین کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ناقدین نظام میں موجود کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں اور ان کمزوریوں کو دور کر کے ہی ریاست کا نظام بہتر طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں صحافت متنوع اقسام کے مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ آزادی صحافت مہیا کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ جو صحافی ایک حد سے زیادہ سچ بولنے کی کوشش کریں انہیں ریاستی اداروں کی طرف سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کی بات کی جائے تو گزشتہ چار دہائیوں کی محنت کے بعد ادارے عوام کے سیاسی شعور کو محدود کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس کی بدولت عوام میں صحیح اور غلط خبر میں تمیز نہیں رہی ہے۔ نتیجتاً ادارے تو مطلق العنان ہیں ہی ان کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی چہرے بدل کر حکومت میں آتے ہیں اور خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ عوام کو اس سب کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ آزادی صحافت نہ ہونے کی وجہ سے ادارے اور سیاستدان اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی۔
مختصر یہ کہ جب تک صحافت کو آزاد نہیں پوگی عوام کے اصل مسائل حکام تک پہنچنا ممکن نہیں۔ ازادی صحافت کی عدم موجودگی میں ملک کی بہتری کی امید نہین کی جاسکتی۔ نظام تب ہی بہتر ہوگا جب ملک میں تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔کیونکہ آزاد صحافت ہی سماج میں تنقیدی ، سیاسی اور سماجی شعور پیدا کر سکتی ہے