پنجاب یونیورسٹی کے دو سالہ بی اے کے امتحانات مکمل معروضی کرنے کے فیصلے کے بعد طلبہ کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے تقریبا 2 لاکھ طلبہ دو سالہ بی اے/ بی اسی سی کا امتحان پرائیویٹ طور پر دیتے ہیں۔ جن کا امتحان سالانہ بنیاد پر یونیورسٹی کے قائم کردہ پنجاب بھر میں مختلف امتحانی مراکز میں ہوتا ہے۔ کرونا وائرس کے پیش نظر پنجاب یونیورسٹی نے رواں سال کے امتحانات کو آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پرچوں کے پیٹرن کو روائتی طریقہ کار سے یکسر بدل کر اس کے لئے نیا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ جسکے مطابق تمام پیپرز مکمل طور پر معروضی ہونگے۔
اس حوالے پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے/بی ایس سی کرنے والے طلبہ کو تشویش ہے کہ انہوں نے جس روایتی طریقہ امتحان کے لیے سارا سال تیاری کی ہے اسے اچانک تبدیل کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔
اس حوالے سے بی ایس سی کے طالبعلم منان شبیر کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ طور پر تعلیم جاری رکھنے والے وہ طلبہ ہیں جو یونیورسٹیوں کی ریگولر تعلیم کی بھاری قیمت ادا نہیں کر سکتے۔ اب ان کے پاس نہ آن لائن امتحانات کے لئے ضروری آلات، تیز انٹرنیٹ کی سہولت اور تکنیکی تربیت موجود ہے اور نہ ہی ان سہولیات کے لئے درکار رقم۔ اور امتحانات یکسر تبدیل شدہ پیٹرن کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ بی اے کے طالب علم راشد علی کا کہنا تھا کہ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی طلبہ کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے اس ناقابل عمل امتحانات پالیسی کو فی الفور ختم کرے۔
پرائیویٹ طلبہ کو درپیش اس مسئلہ کے متعلق جب ہم نے پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹیو کے رہنما علی رضا ان کا کہنا تھا کہ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو طلبہ کے ساتھ اس رویے کی مذمت کرتی ہے یہ معاملہ ہمارے علم میں ہے اور ہم پہلے سے ہی اس پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان طلبہ کے مسائل سنے جائیں اور ان کو حل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے طبقاتی نظام تعلیم ان طلبہ کو ایک طرف تعلیم کے برابر حقوق نہیں دیتا تو دوسری طرف جامعات انہیں تعلیم کچھ ڈیلیور کئے بنا صرف پیسے بٹورتی ہیں جو کہ انتہائی افسوسناک اور حکومت کا ان مسائل پر آنکھیں بند کر لینا خطرناک ہے۔