گزشتہ روز یومِ جامعہ پنجاب کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع پر اپنی لڑکھڑاتی ہوٸی اردو اور محدود علم کے ساتھ اس ہی درسگاہ کا طالبِ علم ہونے کے ناتے آپ کو جامعہ پنجاب کا تعارف کرواتا ہوں۔
جامعہ پنجاب جس کو ”یونیورسٹی آف دی پنجاب“ لکھا پڑھا جاتا ہے ایشیا کی سب سے پرانی اور مشہور درسگاہوں میں اپنا مقام بغیر کسی تذبذب کے اونچا اور منفرد رکھتی ہے۔ اس کو تعمیر کرنے کا خیال سب سے پہلے Sir Chales Wood نے 1854 میں پیش کیا جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈر آف کنٹرول کا پریزیڈنٹ تھا۔ باوجود تین زبردست یونیورسٹیز کی موجودگی کے جس میں ممبٸی یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی آج کے دن یعنی 14 اکتوبر کو Gottlieb Wilhelm Leitner نے 1882 میں اس کا باقائدہ آغاز کیا۔
بٹوارے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے بھی دو ٹکڑے ہوئے جس میں ایک پنجاب یونیورسٹی چندیگڑھ اور دوسری پنجاب یونیورسٹی لاھور بناٸیں گئی۔
ویسے تو جامعہ پنجاب کی خصوصیات لکھنے سے انجام نہیں پہنچ سکتیں پر چند اک قاری کو سپرد کرنے کی جسارت کی جاتی ہے۔
جامعہ پنجاب کا مین کیمپس جو 1960 میں تعمیر کیا گیا لاھور کے مشہور کینال روڈ پر وقوع پذیر ہے جس کی وسعت 15000 ایکڑ سے بھی چوڑی اور دراز معلوم کی جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں بہ غرضِ سمجھ اس قائداعظم کیمپس کے اندر سو LUMS جیسے کیمپسز، دس FCc اور 135 NUST کے جیسے کیمپسز بناٸے جا سکتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے بعد دنیا کا یہ دوسرا کیمپس ہے جس کے بِیچوں بیچ سے نہر بہتی ہوٸی اس کی خوبصورتی میں مزید وقار کا سبب بنتی ہے۔
اس درسگاہ کے اندر 138 ڈپارٹمینٹس اور 19 فیکلٹیز باقائدگی سے کام کرتی ہیں جبکہ 45000 سے زیادہ طالب علم پڑھتے ہیں (کچھ پڑھاتے بھی ہیں)۔اس کے مین کیمپس میں 28 ہاسٹلز جن میں 17 بوائز ہاسٹلز اور 11 گرلز ہاسٹلز کھچا کھچ بھرے ملتے ہیں۔ اس ہی کیمپس کی لائبریری میں 500000 سے بھی زیادہ کتب موجود ہے۔ اس لائبریری کی دو منزلیں ہیں جس کی ہر اک منزل میں 2500 سے زیادہ طالبہ و طالبات کے بیٹھنے کی گنجاٸش ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کی کوئی بھی دوسری جامعہ دینے سے قاصر رہتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے کیمپسز کو زیرِ غور لایا جائے تو کے پی کیمپس، علامہ اقبال کیمپس، قائداعظم کیمپس لاھور (مین کیمپس)، اولڈ کیمپس لاھور (نزد انارکلی بازار)، گجرانوالا کیمپس، خانپور کیمپس اور آخر میں جہلم کیمپس کے نام نمودار ہوتے ہیں۔
جامعہ پنجاب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے جامعہ کے اندر سیاسی مخالفت کو ناقابلِ برداشت جانتے ہوئے کہا تھا کہ ”افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے اہم ترین فیصلے پنجاب یونیورسٹی کی مین کینٹین سے کیے جاتے ہیں۔
جامعہ پنجاب کی تاریخ کی ساکھ یہ نام بھرتے ہیں جو کہ اس کی مٹی سے علم کی روشنی سے سرشار ہوئے جن میں عبد السلام (نوبل پراٸز ہولڈر اور فزسٹ)، پاکستان کے سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، ناموَر سیاست دان جاوید ہاشمی، علامہ طاہر القادری، ہر گوبنِد کھُرانا (نوبل لاریٹ) اور بھی بہت سے ہونگے جن کو آپ ایڈ کر سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس کی مٹی میں بھی سیاست موجود ہے۔ جامعہ پنجاب کے بارے یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ یہ مِنی پاکستان ہے۔ اس میں رہنے والے طلبات بخوبی سمجھتے ہیں کہ جس نظام کے وہ مکین ہیں وہ ہُو بہ ہُو کس نظام کے راز پاش پاش کرتا ہے اور کس طرح پاکستان کے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ کس طرح ایک اسٹیبلشمینٹ پر ایک اور اسٹیبلشمینٹ ہوتی ہے، کس طرح اس کے اندر مخصوص قوتیں تیار کی جاتی ہیں، کس طرح رجعت پسند سوچ کو فراوانی چڑھائی جاتی ہے، کس طرح اور کیوں کر ان قوتوں کو لڑایا جاتا ہے اور کس طرح ان سب کا انجام تجربہ کاری پسندی، علم، عقل و فہم، ترقی و تجریدی سوچ سے دوری میں ہوتا ہے۔
اس جامعہ کی عام بات جو عام لوگوں کے علم میں نہیں ”تشدد“ اور ”لڑائی“ ہے۔ اس ہی بات کی خاص بات یہ ہے کہ میں خود بھی اس کے متعلق کھل کے لکھنے پر قادر نہیں۔ چند اِک رجعت پسند و انتہا پسند ذہن یونیورسٹی کو بڑے عرصے تک ملبے تلے روندتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا اک دفعہ پنجاب یونیورسٹی آنا ہوا تو طمانچے پڑنے پر اسے بھی جان پچا کر بھاگ نکلنا پڑا۔ تشدد کی زم میں اشارتاً ایٸر فونز لگانا جرم تصور کیا جاتا، ساتھ بیٹھ کر پڑھنا ممنوع، سٹڈی سرکلز سے ذاتی دشمنی، کوئی بھی ترقی پسند سرگرمی خارش کا سبب بنتی ہوئی ابھی بھی نظر آتی ہے۔ جامعہ پنجاب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے جامعہ کے اندر سیاسی مخالفت کو ناقابلِ برداشت جانتے ہوئے کہا تھا کہ ”افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے اہم ترین فیصلے پنجاب یونیورسٹی کی مین کینٹین سے کیے جاتے ہیں۔
اجیت پرساد