مورخہ 23 اکتوبر بروز بدھ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اور انقلابی طلبہ محاذ کی مرکزی قیادت نے لاہور میں پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے طلبہ یونین کی فی الفور بحالی کے ساتھ یونین الیکشن کے انعقاد کا شیڈول، ہراسگی کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی، ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کی تحقیقات کے لئے طلبہ نمائندگی کے ساتھ آزاد انکوائری کمیشن کا قیام اور دیگر مطالبات کے لیے 20 نومبر کو ملک بھر میں طلبہ یکہجتی مارچز کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ لاہور میں یہ مارچ جی سی یونیورسٹی سے چیرنگ کراس تک کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو گزشتہ پانچ سالوں سے ہر نومبر ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچز کا اہتمام کرتی رہی ہے۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال پھر طلبہ یکجہتی مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ مارچ کے مطالبات میں طلبہ یونین کی بحالی، کیمپس پر ہراسگی کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی، جبری طور پر گمشدہ طلبہ اور اساتذہ کی رہائی اور دیگر مطالبات شامل ہیں۔
انقلابی طلبہ محاذ کے سنٹرل آرگنائزر اویس قرنی کا کہنا تھا کہ جو بھی تعلیم کا کاروبار کرہا ہے وہ میاں عامر ہے یا جو بھی ہے اسے بند ہونا چاہیے۔ تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر اس ملک کے طلبا کو مفت تعلیم دی جائے۔ اور گلگت بلتستان، ایکس فاٹا، بلوچستان، سندھ اور سرائیکی وسیب سمیت ملک بھر کے تمام دور دراز علاقوں میں نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔
اس موقعہ پر بات کرتے ہوئے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے مرکزی نائب صدر حماد کاکڑ کا کہنا تھا کہ طلبہ کو فیسوں میں اضافے اور جبری گمشدگیوں سمیت کئی مسائل کا سامنا تو تھا ہی مگر پنجاب کالج واقعے نے اس بحران کو مزید واضح کر دیا ہے۔ کیمپسز پر جنسی ہراسانی کے متعدد واقعات کی وجہ سے طلبہ کا اس تعلیمی نظام پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ مگر ہمیں کسی حکومتی و ریاستی سطح پر ان مسائل کے حل کے لیے کوئی اقدامات کیے جاتے نظر نہیں آ رہے۔ اور ہمیں اندازہ ہے کے ہمیں یہ حقوق کسی صورت خود بخود نہیں ملیں گے بلکہ طلبہ متحد ہو کر جدوجہد سے ہی یہ حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ جس کا ضروری پلیٹ فارم طلبہ یونین ہے۔ جس پر ریاست نے پچھلے 40 سال سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس لیے ہم ملک بھر میں طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات میں ہمارا ساتھ دیں۔